امریکی واپسی ۔۔۔۔۔

افغانستان میں امریکہ نے اپنی شکست تسلیم کرتے ہوئے افغان حکومت کو بتائے بغیر اپنا سب سے بڑا فوجی اڈہ بگرام ایئر بیس خاموشی سے راتوں رات خالی کر دیا اور امریکی فوجی اپنے ملک چلے گئے جبکہ اپنا سارا قیمتی ساز و سامان، قیمتی ترین بکتر بند گاڑیاں اور جدید ترین فوجی ہتھیار پیچھے چھوڑ گئے ہیں، جس پر فی الحال افغان حکومت نے کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔امریکہ 20 سالوں تک خدمت کرنے والے افغانیوں اور ہندوستانیوں کو بے یار و مددگار چھوڑ گیا۔جس سے ان سارے تعاون کرنے والوں میں بے چینی اور تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ کیونکہ طالبان اگر کابل پر دوبارہ حکومت قائم کرتے ہیں تو امریکی ہم کاروں کی زندگیاں خطرے میں پڑ سکتی ہیں اور اس بات کا ادراک امریکہ اور انکے وفاداروں کو بھی ہے،اگرچہ افغان طالبان نے امریکہ کیلئے کام کرنے والے لوگوں کیلئے عام معافی اور صلح کا اعلان کیا ہے مگر ان لوگوں کو فی الوقت اس بات کا یقین نہیں‘ دوسری طرف بیس سال کی اس جنگ میں امریکہ اور ا س کے اتحادیوں نے طالبان قیدیوں کیساتھ جس ظلم و ستم کا مظاہرہ کیا تھا وہ ایک الگ داستان ہے۔ گوانتانامو بے میں قیدیوں کیساتھ ناروا سلوک اور طالبان کا اسکو برداشت کرنا بھی پوری دنیا کو معلوم ہے۔ اب یہی خوف امریکہ کیلئے کام کرنے والوں کو لاحق ہے کہ اسکا بدلہ طالبان ضرور لیں گے۔امریکہ کی دیکھا دیکھی انڈیا نے بھی بادل ناخواستہ اپنی اربوں ڈالرز کی انویسٹمنٹ چھوڑ کر افغانستان سے سفارتی اور غیر سفارتی عملے کو سامان بردار طیاروں کے ذریعے نکالنے میں عافیت جانی۔ ویسے تاریخی طور پر بتاتا چلوں کہ افغانستان اور پاکستان کی کچھ پہاڑیاں ”کوہ ہندو کش“کے نام سے اسی وجہ سے مشہور ہیں اور یہ تاریخی بات مودی اور اسکی فوج کو خوب معلوم ہے۔امریکہ، نیٹو اور انڈیا کے طالبان سے شکست کے بعد مغربی میڈیانے یہ پروپیگنڈا شروع کر دیا ہے کہ طالبان حکومت میں آنے کیلئے پورے ملک میں بہت خون خرابا کرنے جا رہے ہیں۔ جبکہ افغانستان کے اندر حالات یکسر مختلف دکھائی دے رہے ہیں۔ بیس(20) سال کی اس جنگ کے خاتمے پر اب افغانستان میں تقریبا ًتمام طبقات اور مختلف مکتبہ فکر کے لوگ طالبان کو امن لانے کیلئے بخوشی تسلیم کر رہے ہیں اور انہیں خوش آمدید کہہ رہے ہیں۔ کیونکہ امریکہ، نیٹو اور ہندوستان کی یہاں پر آمد نے ملک کو ترقی کی بجائے مزید بدامنی اور تباہی سے دوچار کر دیا ہے۔طالبان کی دوبارہ آمد کو خوش آمدید کہنے کی ایک واضح مثال افغانستان کے علاقے واخان کی ہے۔حال ہی میں پورے ملک پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے کیلئے طالبان نے افغانستان کو پاکستان، ایران، چین اور روس سے ملانے والی بارڈر واخان پر قبضہ کر لیا کیونکہ یہ علاقہ سٹریٹیجک نقطے سے اس خطے میں سب سے اہم تصور کیا جاتا ہے۔کمال کی بات یہ ہے کہ طالبان نے ایک گاڑی میں صرف چار مسلح جوان بھیج کر اس ضلع کا چارج سنبھال لیا۔ یہاں سارے لوگوں نے طالبان کے ان چار مسلح جوانوں کو خوش آمدید کہا اور انہیں مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ جب 1979 کو سوویت یونین نے افغانستان پر حملہ کیا تھا تو اسوقت بھی ساتھ دینے والوں نے سردار داؤد کواسلئے قتل کر دیا تھا کہ اس سے روس کے زیر اثر ملک ترقی کر جائیگا مگر وقت نے ثابت کیا کہ روس کی شکست و ریخت کیساتھ ان کے ہم خیالوں کو بھی زوال آیا۔بالکل اسی طرح اب امریکہ، نیٹو اور ہندوستان کے افغانستان چھوڑنے سے ان کے ساتھ تعاون کرنے والوں کو بھی لینے کے دینے پڑ رہے ہیں۔ امریکہ نے آذربائیجان اور ازبکستان جیسے ملکوں کو درخواست کی ہے کہ امریکہ کا ساتھ دینے والوں کو سیاسی پناہ فراہم کی جائے۔ اب یہ تو آنے والا وقت بتائیگا کہ ان لوگوں کا انجام کیا ہوتا ہے۔ امریکی جنگی تاریخ میں ویت نام کی جنگ بھی افغان جنگ کی طرح بہت طویل عرصے تک چلی۔ ویت نامی حریت پسندوں سے شکست کے بعد جب امریکی فوج نے پسپائی اختیار کرنی شروع کر دی تو ہیلی کاپٹروں اور جہازوں کے ذریعے فوجی واپس جانے لگے۔ امریکہ کا ساتھ دینے والے ویت نامیوں کو یہ یقین تھا کہ انہیں بھی امریکہ لیجایا جائیگا لیکن انکی امیدوں پر پانی اسوقت پھر گیا جب آخری ہیلی کاپٹر آخری امریکی فوجیوں کو نکالنے کیلئے پہنچا۔ سارے فوجی سیڑھی پر چڑھ گئے۔ کچھ ویت نامی بھی انکی دیکھا دیکھی ہیلی کاپٹر تک رسائی حاصل کرنے کیلئے سیڑھی پر چڑھنے لگے مگر امریکی فوج نے رسی کاٹ دی اور چڑھے ہوئے بہت سے ویت نامی نیچے گر گئے۔