پس چہ باید کرد۔۔۔۔

2010ء میں ”پیور ریسرچ سنٹر“کی تحقیق کے مطابق اسلام دنیا میں سب سے زیادہ تیزی سے پھیلنے والا مذہب ہے۔ اگر آبادی میں اضافہ کی موجودہ شرح برقرار رہی تو 2060 ء میں مسلمانوں کی تعداد تین ارب تک پہنچ جائے گی۔ جو کل آبادی کا 31 فیصد ہو گی۔ دنیا بھر کے 1/5 فیصد سے زائد یورپ، شمالی امریکہ اور آسٹریلیا میں آباد ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق برطانیہ، جرمنی، اٹلی اور فرانس میں مسلمانوں کی پانچویں نسل پروان چڑھ رہی ہے۔ جبکہ امریکہ میں اسلام یورپ کی نسبت اپنی تعلیمات اور سچائی کی وجہ سے تیزی سے پھیلنے والا مذہب ہے۔ جس کو امریکہ دہشت گردی کا لیبل لگا کر کمزور نہ کر سکا بلکہ جب مسلمان اور اسلام کا نام لیکر مغربی دنیا کا واویلا بڑھ گیا تو بہت سے دوسرے مذاہب کے لوگوں نے تجسس میں مبتلا ہو کر اسلام کا مطالعہ کرنا شروع کیا اور 2002ء میں یورپ میں قرآن مجید کے جتنے تراجم فروخت ہوئے اتنے پچھلی پانچ دہائیوں میں کل ملا کر بھی نہیں ہوئے تھے۔ یوں اسلامک سنٹرز میں نماز جمعہ کے وقت اسلام میں داخل ہونے والوں کا رش یورپ اور امریکہ کیلئے تشویش کا باعث بنتا گیا مگر پھر بھی مسلمان ایک عرصہ سے ان یورپی ممالک اور امریکہ میں رہنے کے باوجود انتہائی کمزور اوربے بس ہیں۔ ان ممالک میں مسلم حجاب پوش خواتین سے راہ میں حجاب نوچ لینا اور ان پر حملے عام ہیں۔ مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کیلئے توہین رسالت اور خاکوں کی نمائشیں تک منعقد کی جاتی ہیں۔ اب یہاں پھر وہی سوال پیدا ہوتا ہے کہ بلحاظ مذہب دنیا کی دوسری آبادی ہونے کے باوجود ہم میں کیوں طاقت نہیں۔ آخر ہم بے بس کیوں ہیں۔ اسکا جواب ہمیں ترقی کے تین بڑے اصولوں سے ملتا ہے۔ پہلا اصول علم ہے۔ پوری اسلامی دنیا میں آخر کتنی یونیورسٹیاں ہیں۔ ہم حصول علم کیلئے بھی یورپ اور امریکہ کے محتاج ہیں۔ پچھلے پچاس برسوں میں مسلمانوں نے کتنی ایجادات کیں۔ 5 سے 9 سال تک کی عمر کے 61 فیصد بچے سکول ہی نہیں جاتے۔ پوری اسلامی دنیا اپنی دولت کا اعشاریہ دو فیصد ریسرچ پر خرچ کرتی ہے۔ جبکہ مغرب اور امریکہ اپنی آمدنی کا 5 سے 7 فیصد حصہ ریسرچ پر خرچ کرتے ہیں۔یوں ہم اس شعبے میں پسماندہ اور بہت پیچھے ہیں۔دوسرا اصول ہے معیشت کا۔اگر ہم اپنا ملک لے لیں تو سال 2018 ء میں پاکستان کا جی ڈی پی ریٹ 5.99 اور تجارتی خسارہ 5.88 فیصد تھا۔ قرضوں سے معیشت کا پہیہ چلتا ہے اور پھر قرضہ لیکر ہی پچھلے قرض کا سود ادا کرتے ہیں اور یہ سلسلہ کئی دہائیوں سے جاری ہے۔اسلامی ممالک پورے سال ایکسپورٹ سے جتنی رقم حاصل کرتے ہیں، اتنی ہی ہالینڈ پھول بیچ کر کما لیتا ہے اور اسی طرح ہم دوسرے اصول میں بھی ناکام ہیں۔آج سائنس و ٹیکنالوجی اور جدید ترین ہتھیاروں میں آگے ہونا ہی ترقی کا معیار ہے۔ اب سوچئے یہ چیزیں کن کے پاس ہیں۔ اسلامی دنیا کا کوئی ملک دفاعی سازو سامان میں ان کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ اسلامی ممالک اپنے زرمبادلہ کو کمزور کرکے ان سے ہتھیار خریدتے ہیں اسلامی دنیا میں ایٹمی طاقت بھی صرف پاکستان ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ اور دوسرے ممالک کے فتنوں کا شکار بھی پاکستان ہی رہتا ہے۔ امریکہ اور نیٹو ممالک اگر افغانستان میں کامیاب ہو جاتے تو پاکستان کیلئے بڑے مسائل پیدا کر سکتے تھے۔ افغانستان میں طالبان نے امریکہ اور نیٹو ممالک کو شکست دی ہے اور اب یہ قوتیں مجبور ہیں کہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر افغانستان کو افغانوں کے حوالے کریں۔ یہ اب افغان عوام پر منحصر ہے کہ کس قسم کی حکومت بناتے ہیں۔ اب اگر بات ہو مسلم دنیا کی ترقی اور دنیا میں اپنی اہمیت منوانے کی تو مسلمانوں کویہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہم اس وقت تک غیروں کے فتنوں کو نہیں روک سکتے جب تک ہم اس قابل نہ ہو سکیں کہ آئی ایم ایف سے چھٹکارا پا لیں‘ اپنی معیشت کو مضبوط، غربت کو ختم اور سائنس و ٹیکنالوجی میں اس قدر ترقی کریں کہ دوسروں کے محتاج نہ رہیں۔