بھارت‘ افغان صورتحال کے تناظر میں ۔۔۔۔

طالبان کے بڑھتے ہوئے اثر اور بجلی کی رفتار سے افغانستان میں پھیلنے کے باعث کئی ممالک بشمول یورپی ممالک اور امریکہ پریشان نظر آتے ہیں۔ مگر سب سے زیادہ پریشانی بھارت کو ہورہی ہے۔ کیونکہ ایکطرف اس نے افغانستان میں اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کی ہے۔ اس امید سے کہ اسکی معیشت کو خاطر خواہ سہارا ملے گا، جبکہ دوسری طرف افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان کیخلاف کاروائیاں کرنے میں آسانی ہوگی اور ماضی میں اسکی کئی مثالیں موجود ہیں۔ہرات اور جلال آباد میں بھارتی قونصلیٹ کی موجودگیصرف اور صرف پاکستان کیخلاف دہشت گردی اور انٹیلیجنس مقاصد کیلئے ا یقینی بنائی گئی ہے۔ ورنہ ماضی میں ان شہروں میں کبھی بھی قونصلیٹ کا وجود نہیں تھا۔ ان دونوں قونصلیٹ کو تو فوری طور پر بند کر دیا گیا ہے اور قندھارقونصلیٹ سے زیادہ تر عملے کو بھارت واپس بلا لیا گیا ہے۔ مزار شریف اور قندھار قونصلیٹ میں کل ملا کر 500 کے قریب عملہ کام کرتا تھا۔ البتہ بھارت کے سرکاری اعلامیے کے مطابق کابل میں سفارتخانہ اب بھی کام کر رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ بھارت سمیت پوری دنیا افغانستان میں طالبان کی حکومت کیلئے ذہنی طور پر تیار ہو رہی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو اسوقت افغانستان کے دیہاتی اور کئی شہری علاقوں کے اندر طالبان جنگجو جیپوں میں سوار ہوکر کھلے عام گشت کر رہے ہیں۔طالبان کا دعوی ہے کہ انہوں نے افغانستان کے 85 فیصد علاقے پر قبضہ کر لیا ہے۔ امریکہ جس نے پروگرام کے تحت 11 ستمبر 2021 کو افغانستان سے نکلنا تھا، افغان حکومت کو بتائے بغیر اچانک نکل گیا۔1996 میں جب طالبان کی حکومت ملا محمد عمر کی سربراہی میں قائم ہوئی تو پوری دنیا میں صرف تین ممالک نے اسکو تسلیم کیا تھا۔ جس رفتار سے طالبان فتوحات حاصل کر رہے ہیں اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اب سالوں نہیں، مہینوں نہیں بلکہ چند ہفتوں میں افغانستان پر مکمل قبضہ کر لینگے۔ افغان فوج اور طالبان کے درمیان لڑائی کے نتیجے میں اب تک تقریبا دو لاکھ افغانی مہاجر بن کر دوسرے ممالک میں پناہ لے چکے ہیں۔ آگے جاکر انکی تعداد بہت زیادہ بڑھ جائیگی۔ ایک اندازے کے مطابق افغانستان کے 375 اضلاع میں سے تقریبا دو سو اضلاع پر طالبان کا مکمل کنٹرول ہے اور دوسرے اضلاع کی طرف بڑھ رہے ہیں۔اب سوال یہ ہے کہ کیا طالبان بدل گئے ہونگے۔ کیونکہ 1996 سے لیکر 2021 تک ان پچیس سالوں میں انہوں نے بڑے اُتار چڑھا دیکھے۔ انکے رویوں میں یقینا تبدیلی آچکی ہوگی اور حالات نے ان کو دنیا کیساتھ تعلقات بنانے اور اپنے ملک کو آگے لیجانے کے طور طریقے اور ضابطے سکھائے ہونگے۔ ان فتوحات کے بعد طالبان کے حوصلے بہت بلند ہو چکے ہونگے۔ انکی خارجہ اور داخلہ پالیسیوں میں فرق آ چکا ہوگا۔یہ 1999ء کی بات ہے جب ایک پاکستانی وفد کیساتھ مجھے بھی افغانستان جانیکا موقع ملا۔ جہاں قندھار میں ملا محمد عمر سے ملاقات ہوئی۔ ملا عمر کیساتھ انکی پوری کابینہ بھی ان مذاکرات میں شامل تھی۔ مذاکرات کے بعد دوپہر کے کھانے پر مجھے افغان کابینہ کے وزیر خارجہ عبدالوکیل متوکل کے پاس سیٹ ملی۔ اس دوران میں نے ان سے تفصیلی گفتگو کی۔ میں نے انہیں یہ بتانیکی کوشش کی کہ آپکی حکومت دنیا سے کٹ کر رہ گئی ہے۔ کیونکہ نہ تو آپ کیمرے کے سامنے آتے ہیں اور نہ اپنا طرز حکومت دنیا پر واضح کر رہے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف آپکی حکومت نے لڑکیوں کے سکول اور کالج بند کئے ہوئے ہیں۔ ایسے میں آپ کیسے ترقی کے منازل طے کر سکیں گے۔ اسکے جواب میں انہوں نے ایک لمبی کہانی سنائی۔بہرحال یہ انکی منصوبہ بندی تھی مگر 11 ستمبر 2001 کو امریکہ اور نیٹو افواج نے حملہ کرکے انکے منصوبے کو تہہ و بالا کر دیا۔طالبان کے 1996 اور اب کے رویے میں کافی فرق ہے۔ چونکہ انکی لیڈرشپ کی اکثریت دوسرے ممالک میں رہی تو انہیں تجربہ ہو گیا ہو گا کہ کیسے حکومت چلائی جاتی ہے اور کیسے ڈپلومیسی اختیار کرنی چاہئے۔ انہوں نے اس دوران ایران، روس اور تقریبا 18 مہینے امریکہ کیساتھ دوحا، قطر میں مذاکرات کئے۔ ان مذاکرات میں انہوں نے بڑی سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کیا۔ حتی کہ بھارت کیساتھ بھی ڈپلومیٹک روابط رکھے۔ ان مذاکرات اور روابط سے انہیں کافی تجربہ حاصل ہو چکا ہے۔اسوقت جن علاقوں پر طالبان کا کنٹرول ہے وہاں انہوں نے ٹیکس وصولی اور انصاف کی فراہمی کے سلسلے میں ایک نظام وضع کیا ہے جو انکے تجربے کی بنیاد پر ہے اور جوبظاہر بہت موثر ہے۔طالبان کا ترجمان اب انگریزی میں سوالات کے جوابات دے رہا ہے۔اسکا مطلب یہ ہے کہ اب وہ دنیا کے سامنے اپنا نکتہ نظر و بیانیہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں جو پہلے ایسا نہیں تھا۔بھارت نے اپنے قونصلیٹ بند کرکے اور وہاں سے اپنے عملہ کو اسلئے بلا لیا ہے کہ ماضی میں تقریبا تین بلین ڈالر سرمایہ کاری کیساتھ ساتھ سیکورٹی اہلکار بھی افغانستان بھیجے تھے اور بھارت کو اس بات کا خدشہ ہے کہ امریکہ، نیٹو اور یورپ کی طرح اب ہندوستان بھی انکے نشانے پر ہو گا۔ حالانکہ طالبان نے تمام غیر ملکی سفارت کاروں کو تسلی دی ہے کہ اپنا کام جاری رکھیں۔البتہ کشمیر میں مسلمانوں کیساتھ بھارتی ظالمانہ رویے پر طالبان خوش نہیں اور ممکن ہے کہ بھارت کیساتھ اس مسئلے پر اختلاف بڑھے۔ مگر فی الحال اس پر حتمی رائے قائم کرنا قبل از وقت ہے۔