طالبان مزید تین صوبائی دارالحکومتوں پر بھی قابض، شیر ہرات گرفتار

طالبان نے افغانستان کے مغربی صوبے ہرات کے دارالحکومت پر قبضہ کرکے ‘شیر ہرات’ کے نام سے مشہور کمانڈر محمد اسمٰعیل خان کو حراست میں لے لیا جبکہ مزید تین صوبائی دارالحکومتوں کا کنٹرول بھی حاصل کرلیا۔

غیر ملکی خبر ایجنسیوں کی رپورٹ کے مطابق ہرات کے صوبائی کونسل کے رکن نے کہا کہ طالبان نے صوبائی دارالحکومت ہرات میں قبضے کے ساتھ ساتھ ملیشیا کے کمانڈر محمد اسمٰعیل خان کو بھی حراست میں لے لیا ہے۔

رائٹرز کے مطابق صوبائی کونسل کے رکن غلام حبیب ہاشمی نے بتایا کہ اسمٰعیل خان حالیہ جھڑپوں میں طالبان مخالف جنگجوؤں کی قیادت کررہا تھا تاہم انہیں صوبائی گورنر اور سیکیورٹی عہدیداروں کے ساتھ معاہدے کے تحت طالبان کے حوالے کردیا گیا۔

غلام حبیب ہاشمی نے کہا کہ ‘طالبان نے یقین دہانی کروائی ہے کہ وہ ہتھیار ڈالنے والے سرکاری عہدیداروں کے لیے خطرہ نہیں ہوں گے اور نقصان نہیں پہنچائیں گے’۔

محمد اسمٰعیل خان کا شمار افغانستان کے مشہور ترین وار لارڈز میں ہوتا ہے اور انہیں شیرِ ہرات کے طور پر جانا جاتا ہے، انہوں نے 1980 کی دہائی میں سوویت یونین کے قبضے کے خلاف جنگ کی اور شمالی اتحاد کے ایک اہم رکن تھے، جو 2001 میں امریکا کے ہاتھوں طالبان کی حکومت کے خاتمے کے بعد برسر اقتدار آیا۔

ترجمان طالبان ذبیح اللہ مجاہد نے بھی اسمٰعیل خان کی گرفتاری کی تصدیق کردی۔

دوسری جانب صوبہ ہلمند کے دارالحکومت لشکر گاہ میں شدید لڑائی ہوئی اور دو دہائیوں بعد طالبان نے یہاں دوبارہ قبضہ کرلیا جہاں اس دوران سیکڑوں غیرملکی فوجی بھی مارے گئے۔

طالبان نے حالیہ چند روز میں درجن سے زائد صوبائی دارالحکومتوں پر قبضہ کرلیا اور امریکی فوج کے مکمل انخلا سے محض چند ہفتے قبل ہی افغانستان کے دو تہائی حصے پر قابض ہوگئے ہیں۔

ہلمند کے صوبائی کونسل کے سربراہ عطااللہ افغان کا کہنا تھا کہ طالبان نے شدید لڑائی کے بعد صوبائی دارالحکومت لشکر گاہ پر قبضہ کرلیا اور سرکاری اداروں پر اپنا سفید جھنڈا لہرا دیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ لشکر گاہ کے باہر قائم نیشنل آرمی کے 3 بیسز بدستور حکومت کے کنٹرول میں ہیں۔

زابل کی صوبائی کونسل کے سربراہ عطا جان حق بیان نے کہا کہ صوبائی دارالحکومت قالات بھی طالبان کے قبضے میں چلا گیا ہے اور عہدیدار علاقے سے باہر جانے کے لیے آرمی بینک کے قریب موجود ہیں۔

افغانستان کے جنوبی صوبے اورزگان سے تعلق رکھنے والے اراکین پارلیمنٹ کا کہنا تھا کہ مقامی عہدیداروں نے صوبائی دارالحکومت ترینکوت میں ہتھیار ڈال دیے ہیں اور طالبان تیزی سے پیش قدمی جاری رکھے ہوئے ہیں۔

بسم اللہ جان محمد اور قدرت اللہ رحیمی نے بھی ہتھیار ڈالنے کی تصدیق کی ہے اور جان محمد نے کہا کہ گورنر کابل جانے کے لیے راستے میں ہیں۔

امریکا، برطانیہ کا شہریوں کو لے جانے کا منصوبہ

طالبان کی جانب سے افغان کے دوسرے اور تیسرے بڑے شہر پر قبضے کے بعد حالات میں مزید ڈرامائی تبدیلی آئی ہے اور عالمی طاقتیں اپنے سفارتی عملے کی حفاظت کے لیے پریشان دکھائی دے رہی ہیں۔

قندھار اور ہرات میں قبضہ طالبان کے لیے بڑی پیش رفت ہے جبکہ عالمی طاقتوں کی پریشانی میں اضافہ ہوگیا ہے جبکہ کابل تاحال طالبان کی پہنچ کافی دور ہے لیکن افغانستان کےدو تہائی علاقوں پر قابض ہوچکے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق افغانستان میں تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کے پیش نظر امریکا نے کابل سے امریکی سفارت کے خانے کے چند عہدیداروں کی واپسی میں مدد کے لیے 3 ہزار فوجی بھیجنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔

ادھر برطانیہ کا کہنا تھا کہ برطانوی شہریوں کے انخلا کے لیے عارضی بنیادوں پر تقریباً 600 فوجی تعینات کردیے جائیں گے۔

کینیڈا اپنے سفارتی عملے کی بحفاظت واپسی کے لیے اسپیشل فورسز بھیج رہا ہے۔

دوسری جانب ہزاروں شہری بھی خوف کے مارے اپنا گھر بار چھوڑ کر دوسرے علاقوں میں منتقل ہوگئے ہیں اور انہیں خدشہ ہے کہ طالبان کی حکومت قائم ہوئی تو ان کے حقوق چھینے جائیں گے اور ان کے ساتھ ظلم ہوگا۔

افغان مسئلے کا حل نکالنے کے لیے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکا، یورپی ممالک، پاکستان اور متعدد ایشیائی ممالک کے نمائندوں کا اجلاس جاری ہے لیکن بین الافغان مذاکرات تاحال التوا کا شکار ہیں۔

امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغانستان زلمے خلیل زاد کا کہنا تھا کہ ہم شہروں پر حملے فوری طور پر روکنے اور سیاسی حل نکالنے کا مطالبہ کر رہے ہیں اور خبردار کرتے ہیں کہ زبردستی قائم کی گئی حکومت اجنبی ریاست ہوگی۔