جنوبی کوریا کی فوج نے کہا ہے کہ شمالی کوریا نے پیر کو ایک اور بیلسٹک میزائل کا تجربہ کیا ہے، جو جزیرہ نما کوریا اور جاپان کے درمیان سمندر میں اترنے سے پہلے 1100 کلومیٹر تک پرواز کر چکا تھا۔
جنوبی کوریا کے جوائنٹ چیفس آف اسٹاف نے کہا کہ میزائل شمالی کوریا کے دارالحکومت پیانگ یانگ کے قریب ایک علاقے سے داغا گیا تھا، امریکا اور جنوبی کوریا کی افواج نے اس لانچ کی تیاریوں کا پیشگی اندازہ لگا لیا تھا۔
انہوں نے اس نے اس تجربے کی مذمت کرتے ہوئے اسے اشتعال انگیزی قرار دیا، جو جزیرہ نما کوریا میں امن و استحکام کے لیے سنگین خطرہ ہے۔
جنوبی کوریا کی افواج کے جوائنٹ چیف نے کہا کہ فوج ممکنہ اضافی تجربات کی تیاری ، امریکا اور جاپان کے ساتھ میزائل سے متعلق معلومات کے تبادلے کے لیے اپنی نگرانی اور دفاعی پوزیشن کو مضبوط بنا رہی ہے۔
شمالی کوریا کی جانب سے یہ میزائل تجربہ ایسے وقت میں کیا گیا ہے، جب امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن شمالی کوریا کے جوہری خطرے اور دیگر امور پر جنوبی کوریا کے اتحادیوں کے ساتھ بات چیت کے لیے سیئول کا دورہ کر رہے ہیں۔
انٹونی بلنکن کا یہ دورہ ایسے وقت میں ہو رہا ہے، جب جنوبی کوریا کے صدر یون سوک یول کے مختصر مدت کے مارشل لا کے حکم نامے اور اس کے بعد گزشتہ ماہ پارلیمنٹ کی جانب سے مواخذے کے بعد سیاسی ہلچل موجود ہے، جس کے بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ وائٹ ہاؤس میں واپسی سے قبل ٹرمپ کے ساتھ مستحکم تعلقات قائم کرنے سے ملک کو نقصان پہنچا ہے۔
2024 کے آخر میں ایک سیاسی کانفرنس میں شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان نے سیئول اور ٹوکیو کے ساتھ سیکیورٹی تعاون کو مضبوط بنانے کی بائیڈن انتظامیہ کی کوششوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے امریکا مخالف ’سخت ترین‘ پالیسی پر عمل درآمد کے عزم کا اظہار کیا تھا۔
شمالی کوریا کے سرکاری میڈیا نے کم جونگ ان کے پالیسی منصوبوں کی وضاحت نہیں کی اور نہ ہی ٹرمپ کے بارے میں کسی مخصوص تبصرے کا ذکر کیا۔
اپنے پہلے دور میں ٹرمپ نے شمالی کوریا کے جوہری پروگرام پر بات چیت کے لیے کم جونگ ان سے تین بار ملاقات کی تھی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ وائٹ ہاؤس میں واپسی کے بعد پہلے روس، یو کرین تنازع، غزہ میں جنگ پر توجہ دیں گے، کوریا کا معاملہ ان کی پہلی ترجیح نہیں ہوگا۔