طالبان نے سیاسی مفاہمتی عمل کا آغاز کردیا

کابل میں طالبان کو اقتدار کی منتقلی کا عمل شروع ہوگیا، افغان طالبان وفد کی سابق افغان صدر حامد کرزئی اور  اشرف غنی کے دور میں چیف ایگزیکٹو کا عہدہ رکھنے والے عبداللہ عبداللہ سے پہلی بار باضابطہ ملاقات ہوئی ہے۔

عبداللہ عبداللہ دوحہ میں طالبان سے مذاکرات کرنے والی حکومتی قومی مفاہمتی کونسل کے سربراہ بھی تھے۔ انس حقانی نے عبداللہ عبداللہ اور حامد کرزئی سے بیک وقت ملاقات کی۔

طالبان ترجمان کے مطابق ملاقات میں افغان سینیٹ کے سابق چیئرمین فضل ہادی اور دیگر حکام بھی موجود تھے.

طالبان ترجمان کے مطابق ملاقات میں افغان سینیٹ کے سابق چیئرمین فضل ہادی اور دیگر حکام بھی موجود تھے، ملاقات کے دوران  افغان سیاسی قیادت کو فول پروف سکیورٹی دی گئی ۔

علاوہ ازیں طالبان رہنما انس حقانی کی سربراہ حزبِ اسلامی گل بدین حکمت یار سے بھی ملاقات  ہوئی ہے۔

طالبان کے نائب امیر اور دوحہ میں طالبان کے سیاسی دفتر کے سربراہ ملا عبدالغنی برادر بھی آج کابل پہنچيں گے  اور اس موقع پر طالبان اور  افغان حکومت کی مصالحتی کونسل کے درمیان انتقال اقتدار اور حکومت سازی پر بات چیت متوقع ہے۔

خیال رہے کہ افغانستان میں 20 سالہ طویل جنگ کے بعد امریکا نے بالآخر ہتھیار ڈالے اور انخلا شروع کیا۔

امریکی انخلا شروع ہوتے ہی طالبان، جو 2001 میں اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد سے برسر پیکار تھے، برق رفتاری سے مختلف اضلاع پر قبضہ کرتے ہوئے کابل کے صدارتی محل تک پہنچ گئے۔

فی الحال طالبان نے حکومت سازی اور دیگر سیاسی امور سے متعلق اعلان نہیں کیا اور صرف عالمی برادری سے کہا ہے کہ وہ تمام ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات اور مل کر چلنا چاہتے ہیں۔ طالبان نے ملک میں موجود تمام افراد کے لیے عام معافی کا بھی اعلان کیا ہے۔

ممکن ہے کہ آئندہ چند روز میں طالبان افغانستان میں حکومتی ڈھانچے کا اعلان کریں۔ قوی امکان اس بات کے ہیں کہ طالبان پارلیمانی یا صدارتی نظام حکومت کے بجائے خلافت کو ترجیح دیں گے۔

گذشتہ روز پریس کانفرنس میں طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا تھا کہ جلد مضبوط اسلامی قومی حکومت تشکیل دی جائے گی۔