انسان کو جتنی نعمتیں عطاء کی گٸی ہے ان میں سب سے بڑی نعمت وقت ہے۔وقت ایک ایسی دولت ہے جس کی جان سے مشابہت ہے،جس طرح روح انسان کو ذندگی میں ایک بار ملتی ہے اور جسم سے نکل جانے کے بعد پھر کبھی واپس نہیں آتی،اسی طرح ”آج“ بھی ذندگی میں ایک بار آتا ہے اور پھر گزرجانے کے بعد کبھی ہاتھ نہیں آتا۔چناچہ قیامت کے دن بھی انسان سے اس بارے میں سوال ہوگا کہ اس نے اپنی عمر،اپنی جوانی اور اپنے علم کا کس طرح استعمال کیا۔
ہمارا حال یہ ہے کہ ہماری ذندگی گھٹ رہی ہے اور ہم اپنی موت کے قریب جارہے ہیں لیکن اس کے باوجود ہم نٸے سال کی آمد پر خوشی مناتے ہیں ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ایک نیا سال کا اضافہ ہوگیا،حالانکہ اضافہ نہیں ہوا بلکہ جتنی عمر تھی اس میں سے ایک سال کم ہوگیا ہے۔
تعجب کی بات ہے کہ آخر یہ سال کے نٸے اور پہلے دن کو کونسی تبدیلی واقع ہوجاتی ہے کہ ہم عجیب وغریب غیرسنجیدہ حرکات پر اترآتے ہیں۔یہ دن بھی دوسرے ایام سے کچھ الگ نہیں ہوتا،ایسا نہیں ہے کہ نٸے سال کے پہلے دن پریشانی نہیں ہوتی بلکہ خوشی ہی خوشی ہوتی ہے،غم میں ڈوبے لوگ اس دن بھی غمگین ہوتے ہیں،نٸے سال پہ بھی لوگوں کو موت آتی ہے،مصاٸب ومشکلات پیش آتے ہیں،اس کے باوجود بھی ہم اس دن کو خوشی کے طور پر مناتے ہیں،جنوری کی آمد سے کچھ دن پہلے نٸے سال کی مبارکباد دینے کے لیےطرح طرح کے میسج اور کارڈ بھیج دینا شروع ہوتے ہیں،اسی طرح زبان سے ہیپی نیو آیٸر(Happy new year)کے کلمات جاری وساری ہوتے ہیں۔نٸے سال کی جشن میں پورے ملک کو رنگ برنگ لاٸٹوں سے سجایا جاتا ہے،آتش بازی کی جاتی ہے کہ جس سے جابجا حادثات واقع ہوتے ہیں۔
تاریخ کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ نیو آیٸر ناٸٹ کی تقریبات کا باقاعدہ آغاز انیسویں صدی میں شروع ہوا،برطانیہ کی راٸل نیوی کے نوجوانوں کی ذندگی کا ذیادہ تر حصہ بحری جہازوں میں گزرتا تھا،یہ لوگ سمندروں کے تھکادینے والے سفروں سے بے زار ہوجاتے تو جہازوں کے اندر ہی اپنی دلچسپی کا سامان پیدا کرلیتے،رنگارنگ تقریبات مناتے،شرابیں پیتے پلاتے،رقص کرتے اور گرپڑ کر سوجاتے،اپنی اور بیوی بچوں کی سالگرہیں مناتے،ویک اینڈ مناتے،کرسمس کااہتمام کرتے یہاں تک کے ایک دوسرے کے کتوں،بلیوں تک کی سالگرہیں منانے لگتے انہی تقریبات کا تسلسل تھا کہ ایک سال 31 دسمبر کو جہاز کا سارا عملہ اکٹھا ہوا،انہوں نے جہاز کے ہال روم کو سجایا،موسیقی اور شراب کا اہتمام کیا،رات دس بجے سب نے خوب شراب پی کر رقص کیا اور ٹھیک بارہ بج کر کرایک منٹ پر ایک دوسرے کو نٸے سال کی مبارکباد دی اور ایک دوسرے کو اپنے ہاتھ سے ایک ایک جام پیش پیش کیا،یہ نیو آٸیر ناٸٹ کا باقاعدہ آغاز تھا،پھر آہستہ آہستہ یورپ نے اس تہوار کو اپنا لیا اور مغرب کی تقلید میں آندھے مسلم ممالک نے بھی اس تہوار کو اپنے ہاں منانا شروع کیا۔حالانکہ اس تفصیل سے یہ واضح ہوا کہ ابتداء سے اس تہوار میں کوٸی خوبی اور بھلاٸی نظر نہیں آٸی۔
دراصل میں نیا سال ہمیں دینی اور دنیوی دونوں میدانوں میں اپنا محاسبہ کرنے کی طرف متوجہ کرتا ہے۔کہ جو ایک سال گزرگیا اس میں ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا؟
چنانچہ ہمیں عبادات،معاملات،اعمال،حلال وحرام،حقوق اللہ اور حقوق العباد کے میدان میں اپنا احتساب کرنا چاہیے کہ ہم نے گزشتہ سال کے بہ نسبت اس سال میں عبادات میں کچھ اضافہ کیا ہے،ہم سے کیا کیا غلطیاں ہوٸیں۔
اسی طرح دنیوی اعتبار سے بھی اپنا احتساب کرنا ضروری ہے کہ ہم نے اس سال میں کیا سیکھا اپنے اندر کیا تبدیلیاں لے کر آٸے۔اگر کوٸی تاجر ہے تو وہ اپنی تجارت کا جاٸزہ لیں کہ اس سال تجارت میں کیا کچھ ترقی کی ہے؟
لہذا اس سال میں دینی اور دنیاوی اعتبار سے جو کوتاہیاں اور غلطیاں سرزد ہوٸے ہیں ان کو کسی کاغذ پر لکھ کر آنے والے سال میں اس غلطیوں کو ختم کرنے یا کم کرنے اور مزید بہتری لانے کے لیے لاٸحہ عمل کو تیار کرنا چاہیے۔۔ (شیخ سیف اللہ)