انمول تحفہ

 کتاب پڑھتے ہوئے کچھ اقتباس اتنے پر اثر ہوتے ہیں کہ وہ پڑھنے والے کو اپنی گرفت میں لیتے ہیں اور وہ ایک طرح سے حاصل مطالعہ کی حیثیت حاصل کرلیتے ہیں۔ ڈاکٹر صفدر محمود کی کتاب بصیرت میں مسکراہٹ کے عنوان سے جو تحریر نظر سے گزری وہ یقینا متاثر کن رہی۔مصنف  مسکراہٹ کے حوالے سے لکھتے ہیں '' کم از کم مسکراہٹ انسان کی آنکھوں کو تو لبھاتی اور تسکین دیتی ہے خوش اخلاقی کا تاثر دیتی ہے اور خوش اخلاقی انسان میں خوشی اور مسرت کے جذبات ابھارتی ہے اسی لئے ہمارے دین  میں حسن اخلاق پر بڑا زور دیاگیا ہے اور مسکرا کر ملنے کو نیکی اور صدقہ قرار دیا گیا ہے یہ الگ بات کہ ہم مسلمان اتنی آسان نیکی کے ثواب سے بھی محروم رہتے ہیں پاکستان اور دوسرے ممالک میں آپ کو مسکراہٹ یا مسکرا کر استقبال کے مناظر بہت کم نظر آئیں گے اسی طرح السلام علیکم کی عادت بھی کم کم ہی ملے گی' مجھے اس بابے کی بات اتنی اچھی لگی کہ میں اندرہی اندر کھل اٹھا بابا چہرے پہ لمبی سفید نورانی ریش مبارک سجائے نوجوانوں کی مانند چلا رہا تھا ایک ڈاکٹر سفید کوٹ پہنے' گلے میں اسٹتھو سکوپ(ٹوٹیاں) لٹکائے اپنے اسسٹنٹ کے ساتھ تیز تیز قدم اٹھاتے وارڈ کی جانب بڑھ رہا تھا اس کا چہرہ لٹکا ہوا اور بہت متفکر لگ رہا تھا بابے نے اسے السلام علیکم کہہ کر پیار سے روکا اور کہنے لگا کہ ڈاکٹر صاحب آپ مریضوں کو دیکھنے وارڈ میں جا رہے ہیں ان میں کچھ معمولی مرض میں مبتلا ہونگے اور کچھ جان لیوا مرض کا شکار ہونگے ان میں کچھ آنکھوں میں زندگی کی آس کے چراغ جلائے لیٹے ہوں گے اور کچھ موت کی آمد کے تصور سے ناامیدی کے اندھیروں میں ڈوبے ہونگے ڈاکٹر صاحب آپ وارڈ میں چہرے پر مسکراہٹ کے پھول کھلا کر داخل ہوں تو اس سے مریضوں کی نصف بیماری رفع ہو جائے گی۔'' اس اقتباس کے مطالعے کا حاصل یہ نکلا کہ اکثر حالات میں ہم جس چیز کو چھوٹی اور کم قیمت سمجھتے ہیں وہ بیش قیمت اور انمول ہو سکتی ہے۔ یہ لینے اور دینے والے کی کیفیت اور ان کی ضروریات کے مطابق ہے ۔ بسا اوقات دینے والا کوئی چیز دیتے ہوئے اسے کم قیمت سمجھتا ہے تاہم لینے والے کیلئے وہ بہت وقعت اور قدر رکھتی ہے ۔ مسکراکر اور خوشدلی سے ملنا وہ عادت ہے کہ جس میں یہ آجائے اس کے لئے زندگی آسان تر ہوتی جائے گی اور لوگ اس سے ملتے ہوئے خوشی محسوس کریں گے۔یعنی ایک طرح سے اسے دوست بنانے کا ملکہ حاصل ہوجائیگا۔اس طرح اگر کسی میں ہر وقت ماتھے پر شکن ڈالے رکھنے کی عادت ہے تو دل سے وہ کتنا ہی مخلص کیوں نہ ہو اسے سے ملنے والے تو اس  کے چہرے سے ہی اندازہ لگا سکتے ہیں۔ انسان کا چہرہ اس کے اندر کی عکاسی کرتا ہے ۔ یعنی ایک انسان اگر فکر مند ہے تو اس کے چہرے پر فکرمندی کے آثار نظر آئیں گے اور اگر وہ دلی خوشی محسوس کرتاہے تو چہرے پر اس کے آثار نظر آئیں گے۔ تاہم کچھ مناصب اور پیشوں کا تقاضاہے کہ اس سے منسلک حضرات اگر اندر کے جذبات سے قطع نظر ظاہری طور پر بھی خوش دلی اور مسکراکر ملنے کی عادت اپنائیں تو یہ بہت اہم ہے۔ طبیب اور ڈاکٹر و ہ فردہے جس سے دکھے اور دردمند لوگوں کا پالا پڑتا ہے۔ اس لئے اگر کوئی ڈاکٹر مریض سے خوشدلی کے ساتھ ملتا ہے اور اس کے  ساتھ ہمدردی کا کھل کر اظہار کرتاہے۔تو مریض پر اس کے بہت مثبت اثرات مرتب ہوں گے اور جس طرح مذکورہ اقتباس میں کہا گیا کہ مریض کی آدھی تکلیف تو ڈاکٹر کے مسکرا کر ملنے سے رفع ہو جائے گی۔یہ محض طب کے شعبے کی بات نہیں بلکہ یہ اصول  تمام شعبہ ہائے زندگی پر  لاگو  ہو سکتا ہے۔