بچے کی تربیت

بعض اوقات والدین بچوں سے فاصلہ رکھ کر سمجھتے ہیں کہ اس طرح بچے ان کی بات اچھی طرح مانیں گے تاہم اکثر اوقات اس کے نتائج برعکس سامنے آتے ہیں، اس حوالے سے سائکاٹرسٹ پروفیسر ڈاکٹر محمد شفیق اپنی کتاب ”ذہن کی دنیا“ میں لکھتے ہیں ”کھیلنا کودنا نہ صرف بچے کا حق ہے بلکہ یہ اس کی شخصیت کو ہما جہت بنانے کیلئے ضروری بھی ہے،باپ کو چاہئے کہ وہ لڑکے کی صرف پڑھائی کی پوچھ گچھ نہ کیا کرے اس کی کھیل کود کی دلچسپیوں میں بھی حصہ لیا کرے، اسکے علاوہ کم از کم پڑھے لکھے باپ کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ نصابی تعلیم کے ساتھ ساتھ غیر نصابی کتابیں اور آجکل کے زمانے کے مطابق انٹرنیٹ پر مفید  مطالعے سے لطف اندوز ہونے کی عادت ڈالے صرف کمپیوٹر کی تالہ بندی یا جھاڑ جھپٹ کے ساتھ مسئلے حل نہیں ہوتے۔شادی بیاہ اور مسجد کے علاوہ جہاں مناسب ہو محفل اور مجلس میں لے جانا بھی باپ کا فرض بنتا ہے اس طرح بچے میں خود اعتمادی آتی ہے اور مجلس کے آداب سیکھتا ہے اس مضمون میں ہر باپ کو نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ لڑکے کے بڑے ہوتے ہی اس سے دوری کی بجائے نزدیکی اختیار کی جائے اسکو ساتھی اور ایک جونیئر دوست کی کی حیثیت دی جائے اس سے گپ شپ لگائی جائے بڑے طریقے سے اس کی مشکلات کا اسکے منہ سے سنا جائے اور صبر سے سنا جائے کہیں اگر جھڑکنے کی ضرورت پڑ جائے تو یہ کام اس کو علیحدہ کمرے میں بلا کر کیا جائے،ایسا کرنے سے پہلے اس کی بات پوری طرح سن لی جائے اور اس کو ہر طرح کا یقین دلایا جائے کہ اس کی تحدید کا مطلب ہر گز اس کی بے عزتی یا ناخوش کرنا نہیں ہے بلکہ اسکے برعکس آئندہ شرمندگی اور بدنامی سے بچانے کیلئے کیا جارہا ہے اگر بچے کو سکول میں چند مشکلات کا سامنا ہو یا پڑھائی میں اسکی کارکردگی آپ کے حسب توقع نہیں تو بڑے ٹھنڈے دل سے اسکی وجہ معلوم کی جائے باپ ہی خود جاکر بڑے ادب اور طریقے سے استاد سے بچے کے متعلق رپورٹ اور استاد کو زیادہ مہربان اور متوجہ ہونے کیلئے مناسب الفاظ میں درخواست کرے۔“ ڈاکٹر شفیق کی کتاب سے اس اقتباس کا حاصل مطالعہ بچوں کے ساتھ قریبی رابطہ رکھنا اور ان کی سرگرمیوں میں دوست کی حیثیت سے شریک ہونا ہے۔ اس طرح بچہ زیادہ بے تکلفی سے اپنے مسائل والدین کے ساتھ زیر بحث لاسکتے ہیں، جب کہ دوسری صورت میں اگر والدین اپنے آپ کو ایک خول میں بند کرکے بچے کی جھڑکنے اور غصہ کرنے کے ذریعے تربیت کی کوشش کریں تو اس سے بچہ بجائے سلجھنے کے مزید بگڑ سکتا ہے۔اس طرح بچے کی عزت نفس کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے کہ دوسروں کے سامنے بچے کو جھڑکنے اور ڈانٹنے سے اس کی شخصیت پر منفی اثرات پڑتے ہیں وہ اپنے آپ کو دوسروں کے مقابلے میں کم تر سمجھنے لگتا ہے اور یہ احساس کمتری پھر مشکل سے ہی اس کی شخصیت سے نکل سکتا ہے۔