اپنی ”اد ب کے اطراف“ میں ناصر علی سیّدرقم طراز ہیں کہ قصہ خوا نی پشا ور کے ما تھے کا جھو مر رہا ہے‘ جب یہاں دا ستا ن گو مسا فروں کو رت جگو ں کے آ داب سکھا یا کرتے تھے اور ان آ داب میں پوری تو جہ سے کہا نی سننا سر فہر ست تھا‘کو ئی کو ئی مسا فر شا ید سوال کا ڈول بھی ڈا لتا ہو گا مگر ان دنو ں زیا دہ تر سنی سنا ئی با تو ں پر ہی اعتبا ر کر لیا جا تا تھا کہ ابھی آ دمی آ دمی سے ز یا دہ بو ر نہیں ہوا تھا‘مگر 29 اپر یل 1939ء کو جب نصیر احمد جامعی کی رہا ئش گا ہ پر ”بز م دا ستا ن گو کے قصے کہا نیوں کو سننے وا لو ں نے خوب خوب پر کھا کہ اب زما نے کے تقا ضے اور ہو گئے تھے اس بزم کی پہلی نشست میں سننے والو ں نے تلا فی کے نا م سے پندرہ صفحو ں پر مشتمل نسیم حجا زی کے افسا نے پر حفیظ ہو شیا ر پو ری کی صدا رت میں جس طر ح گفتگو کی اور بے لا گ تبصرہ کیا وہی رو شنی کا معتبر حوالہ یوں ٹھہر ا کہ ان با ذوق اور ادب کیلئے پر خلوص احبا ب کی محبت نے صر ف چا ر ما ہ بعد ہی دا ستا ن گویا ں کی بز م کو ”حلقہ اربا ب ذوق“کا نا م دے دیا ا نجمن سا زی اور انجمن با زی اس زما نے کا دستو ر تھا کہ تب تک ہماری مجلسی زندگی کی رعنا ئیا ں ابھی مد ہم نہیں ہوئی تھیں‘ اس نئے ادارے کے مقا بل کچھ اور چراغ بھی جلتے رہے مگر یہ لا ہو ر سے نکل کر جب با قی شہر وں تک پہنچا تو بہت سی ادبی انجمنوں کے دل نا تو اں میں سکت نہ رہی اور اب اس کی روشنی چا رد انگ عا لم میں پھیلی ہو ئی ہے۔ خصو صاًجو ہر میرا ور عتیق احمد صد یقی نے جب نیو یا ر ک میں اس کا اجراء کیا تو یہ حلقہ ہاتھوں ہا تھ لیاگیا اور تشنگا ن ادب کیلئے ایک ٹھنڈے پا نی کا چشمہ ثا بت ہو ا‘عمو ماًاس ادارے کے تنقیدی اجلاس ہفتہ وار ہی ہو تے ہیں لیکن یہ سلسلہ اپنے قیا م سے لے کر آج تک بو جوہ وقفوں سے بھرا ہو ا ہے۔پھر حلقے کی بسا ط لپیٹ دی جا تی ہے۔ یہ کو ئی ایک با ر نہیں با ر با ر ہو ا زیا دہ لو گ تنقید کے معیا ر سے شا کی ہو تے ہیں اور اصلاح احوا ل کی یہی صو رت انہیں بھا تی ہے کہ وہ اس سے لا تعلق ہو جا ئیں۔خصو صا ًسینئر ادیب شا عر جب شر یک نہیں ہو تے تو سیکھنے کا عمل رک سا جا تا ہے اور نو جوا نو ں کی صحیح تربیت نہیں ہو پا تی ایک وقت تھا کہ حلقے کے باقاعدہ ارکان میں سید فارغ بخاری‘ رضا ہمدانی‘ خاطر غزنوی اور کم کم مگر محبت سے شریک ہونے والوں میں شوکت واسطی‘ سید اشرف بخاری اور مظفر علی سید جیسے قدکاٹھ کے لوگ شامل تھے ان کے بعد پروفیسر طہٰ خان‘ یوسف رجا چشتی‘ مشتاق شباب‘ اعجاز راہی‘ یوسف عزیز زاہد‘ نذیر تبسم‘ اشرف عدیل‘ عزیز اعجاز‘ امجد بہزاد اور حسام حر نے کار ادب کو اہم جانتے ہوئے حلقہ کی قندیل کو روشن رکھا“اس اقتباس کاحاصل مطالعہ کسی کام میں تسلسل اور ارتقاء کی اہمیت ہے، یعنی تھوڑا تھوڑا بہت بن جاتا ہے،یہ ترقی اور بڑھوتری کاعمل یک دم انجام کو نہیں پہنچتا بلکہ اس کے پیچھے ایک تسلسل کارفرما ہوتا ہے۔