اکیلے نہ پھرو


حاصل مطالعہ
تنہائی انسان کیلئے جہاں کئی طرح کے فوائد کا باعث ہے، وہاں اگر کوئی اس کا عادی نہ ہو تو یہی تنہائی اسے کاٹ کھانے کو دوڑتی ہے اور نفسیاتی بیمار بن جاتا ہے، تاہم انسان کو ہر حالت کیلئے تیار رہنا چاہئے،کچھ ایسے ہی حالات کے حوالے سے ناصر علی سیّد اپنی کتاب ”ادب کے اطرف میں“ میں ایک ڈرامائی منظر پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ”یہ اسی ڈرامے کا آخری منظر تھا جس میں ڈرامے کا ایک ایسا کردار بیڈ پر پاؤں لٹکائے بیٹھا ہوا تھا جو کسی بڑے عہدے پر فائز تھا اور اس کی ہمیشہ سے یہ خواہش تھی کہ وہ  لوگوں کو اپنا ممنون احسان رکھے اور لوگ اس کو ایک اچھا آدمی سمجھتے اور کہتے رہیں مگر اس کی ان  حرکتوں سے اس کا جواں سال بیٹا آگاہ تھا وہ باپ کو تو کچھ نہیں کہہ سکتا تھا خود ہی نفسیاتی مریض بن گیا تھا وہ گھر سے باہر وقت گزارتا ایک دن ماں کے کہنے پر مدت بعد گھر آیا اور  باپ کے کمرے میں داخل ہوا‘مکمل خاموش کمرے میں محض گھڑی کی ٹک ٹک گونج رہی ہے بیٹے کے پوائنٹ آف ویو سے کیمرہ گھڑی دکھاتا ہے جس پر ساڑھے نوبجے ہیں جبکہ دفتر جانے کا وقت نو بجے ہوتا ہے اسی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بیٹا سلام کرکے کہتا ہے پاپا آپ کو دفتر نہیں جانا دیر ہوگئی ہے؟ باپ سر اٹھا کر اسے دیکھتا اور کہتا ہے دفتر...؟ کون سے دفتر؟ مگر خیر تم کیا جانو گھر میں رہو تو معلوم ہوتا کہ تمہارا باپ سبکدوش ہو چکا ہے ریٹائرڈ‘ بیٹا دوڑ کر باپ کے پاس جاتا ہے قدموں میں جیسے مطمئن سا بیٹھ جاتا ہے کہ ریٹائرمنٹ کے بعد اب باپ کی لوگوں کو ممنون احسان کرنے والی عادت چھوٹ جائے گی باپ کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر پوچھتا ہے پاپا آپ رو رہے ہیں مگر کیوں؟ باپ جواب دیتا ہے بیٹا میں دن گھر کے ہنگاموں اور گہماگہمی میں بھول ہی گیا تھا کہ شام بھی آئے گی‘ شام جب انسان اکیلا اور تنہا رہ جاتا ہے اور یہ کہتے ہوئے اٹھنے کی کوشش کرتا ہے تو بیٹا باپ کا ہاتھ اپنے کاندھوں پر رکھ کر اسے یہ کہتے ہوئے اٹھنے کا سہارا دیتا ہے کہ نہیں پاپا آپ ایسے بھی اکیلے نہیں ہیں اسی پر منظر فریز ہو جاتا ہے‘ معذرت کہ کہانی مختصر سی تھی مگر تمہید طولانی یہ جس ٹی وی ڈرامہ برف کی آنچ کا حوالہ تھا یہ کم و بیش بیس بائیس سال پرانا ہے۔ ایک اور مقام پر اسی قسم کا منظر پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ایک جاندار تماشا شروع ہو چکا ہے سٹیج پر فنکار اپنی پوری صلاحیتوں کے ساتھ موجود ہیں ان کی پاٹ دار آوازیں اور باڈی لینگویج یعنی نرت بھاؤ میں بلا کی دلکشی ہے تماشائی دم سادھے اگلے ہی لمحہ شروع ہونے والے کلائمکس کے منتظر ہیں ہربار ایک نیا اینٹی کلائمکس مسلسل تماشے کے بیچ کھنڈت ڈال دیتا ہے کہانی پر رائٹر کی گرفت قطعاً مضبوط نہیں ہے مردہ کہانی میں جان ڈالنا جان جوکھم کا معاملہ ہوا کرتا ہے رائٹر اسی الجھن کو سلجھانے میں سرتاپاپسینے میں شرابور ہے ایک اچھے ناٹک میں رائٹر ہمیشہ اپنا آپ کسی ایک کردار میں ڈھال دیتا ہے وہی کردار اس کے رویے اور نفسیاتی حوالوں کا ترجمان ہو جاتا ہے“ ان دو اقتباسات کا حاصل مطالعہ زندگی کی مشکلات اور مسائل کا ادراک کرنا اور ان کے حل کیلئے کھلے ذہن سے تیار رہنا ہے۔