حاضری لگانے کا سلسلہ


حاصل
 کچھ معاملات زندگی کے ساتھ ایسے جڑے ہوتے ہیں کہ زندگی کے مختلف مراحل میں وہ بدلتی صورت میں بھی بدستور موجود ہوتے ہیں،اس حوالے سے ناصر علی سیّد اپنی کتاب”ادب کے اطراف میں“میں لکھتے ہیں ”حاضری اپنے موجود ہونے کا ایک بھر پور حوالہ ہوتی ہے۔ یہ حاضری بچپن سے ہمارے ساتھ جڑی ہوئی ہے سکول میں لبیک اور یس سر سے اس کا آغاز ہوتا ہے اور اسے ہمیشہ پڑھائی سے زیا دہ اہمیت دی جاتی ہے۔ گویاپڑھنا لکھنا ثانوی ہے حاضر ہونا لازمی ہے،یس سر کی عادت بھی اسی دور سے کچھ ایسے ساتھ چپک جاتی ہے کہ پھر عمر بھر یہ چھڑی ہاتھ سے چھوٹنے نہیں پاتی۔ کالج میں یہ حاضری کبھی کبھی ناموجود طلبہ کی بھی ان کے ہمدرد لگا دیتے ہیں کہ وہاں بھی پڑھنے لکھنے کا کوئی نہیں پوچھتا۔غیر حاضر ہونے پر جرمانہ بھرنا پڑتا ہے خیر جوانی کا موسم تو ایسا ہوتا ہے کہ حاضری لگانے کے اور کئی ٹھکانے نکل آتے ہیں اور یہ عمر سمجھنے کی ہوتی ہے نہ سمجھانے کی۔اس لئے حاضریوں کیلئے پورا رجسڑرکھنا پڑتا ہے اب تو خیر موبائل نے بڑی حد تک یہ مشکل آ سا ن کردی ہے لیکن کبھی کبھی گڑ بڑ یہ ہوجاتی ہے کہ غلطی سے ایک کی بجائے ایس ایم ایس دوسرے نمبر پر بھیج دیا جاتا ہے اور پھر سو سو وضاحتیں بھی کام نہیں آتیں۔حاضری اور غیر حاضری کے گوشوارے میں توازن کبھی قائم نہیں رہ سکتا‘حاضری بہرحال موجودگی کا ایک استعارہ ہے لیکن جس طرح سکول کے زمانے میں حاضری کا لگنا یا حاضر ہونا کبھی پڑھائی کے سا تھ مشروط نہیں ہوتا اسی طرح یہ بعد کے دنوں میں بھی کسی کام کے ساتھ خود کو نہیں باندھ سکتا۔دعوت ولیمہ کو پشاور کے زندہ دل”حاضری“کے نام سے اس لئے موسوم کرتے ہیں کہ شادی کے موقع پردی جانے والی دعوت کو اس کے ساتھ لازم نہ کیا جائے۔کھانا کھانا یا نہ کھانا اختیاری ہے اور حاضر ہونا لازمی ہے۔بات یہاں تک درست ہے کہ اب اگر ایک ہی دن میں شہر کا شہر ہی شادی ر چانے پر تل جائے تو بندہ کیا کرے‘کہاں جائے‘کہاں کھائے بعض خوش خوراک تو کھانے کا فیصلہ مینو پوچھ کر کرتے ہیں ایسے لوگوں کو ہمارے دوست عتیق صدیقی خوانچہ فنا کہتے ہیں‘ یار کے کوچے میں بھی حاضری لگانے کے مختلف طریقے ہیں اور اس حاضری کے لئے اپنی اپنی سوچ اور بسا اوقات توفیق کے مطابق جواز بھی تراشنے اور تلاشنے پڑے ہیں جن میں سے پاپولر تو یہی ہے کہ 
تیرے کوچے اس بہانے ہمیں دن سے رات کرنا 
کبھی اس سے بات کرنا کبھی اس سے بات کرنا
کالج کی پراکسی کی عادت دیرتک پیچھا نہیں چھوڑتی‘ کالج میں تو سال دو سال کی بات ہوتی ہے اور پھران کی حاضریاں‘پر اکسیاں اور رول نمبر ماضی کا قصہ بن کر الماریوں میں بندہوجاتے گئے۔“ اس اقتباس کا حاصل مطالعہ یہ ہے کہ جس طرح وقت انسان کی شکل و صورت پر اثر انداز ہو کر نقوش بدل ڈالتا ہے اسی طرح رویوں اور عادات و اطوار کی صورت تو بدل جاتی ہے تاہم وہ کسی نہ کسی طور اپنی موجودگی کو برقرار رکھتے ہیں‘ ناصر علی سید کی تحریر کا حاصل مطالعہ یہ ہے کہ زندگی میں کچھ کام مستقل بنیادوں پر جاری رہتے ہیں تاہم عمر اور وقت کیساتھ ان میں تبدیلیاں آتی رہتی ہیں جو سکول ہی سے شروع ہو کر ساری عمر ساتھ لگی رہتی ہے۔