چمن کے رنگ وبو نے اس قدر دھوکے دیئے مجھ کو


ناصر علی سیّد اپنی کتاب”اداب کے اطراف میں“ میں لکھتے ہیں ”کون جانے کہ دوردراز کے ان علاقوں کے مکینوں کا کیا حال ہوگا جہاں پینے کا صاف پانی نہیں ملتا اور لوگ جو ہڑوں اور تالابوں کا پانی پینے پر مجبور ہیں یا جہاں پر میلوں دور سے خواتین سروں پر گھڑے اُٹھائے پانی لانے پر مجبور ہیں صوبہ خیبر پختونخوا میں ایسے علاقوں کی کمی نہیں ایک لاچی ہی کو لیئجے جہاں کئی ایک ترقیاتی سکیمیں عالمی اداروں نے شروع کررکھی ہیں مگر صورتحال میں غالباًہدف کے مطابق کامیابی نہیں ملی۔اس طرح کئی علاقوں میں غیر سرکاری تنظیمیں کام کررہی ہیں اوران کو بھی سو فیصد کامیابیاں ابھی نہیں ملیں تاہم اتنا ضرور ہوا ہے کہ ان علاقوں میں لوگوں کے رہن سہن کے طور طریقوں میں فرق آیا ہے اور یہ احساس وادراک حاصل کرنا بھی کم اہم نہیں ہے مگر صوبہ کے دارالخلافہ پشاور کی بات سب سے نرالی ہے کہ جب سے یاد پڑتا ہے تب سے اسے خوبصورت مثالی اور قابل دیدبنانے کی باتوں کی بازگشت سننے میں آرہی ہے مگر یہ طرح دار شہر ابھی تک کسی کے قابو میں نہیں آرہا ہے کئی حکومتیں آئیں گئیں کئی باراسکے ہمدرد و غمگساران کے سامنے روئے گڑ گڑائے تجاویز خدمات پیش کیں مگریہ سلسلہ چند تقریبوں کچھ تقریروں اور بہت سی تصویروں تک ہی محدود رہا اور شہر کی صورتحال میں کہیں سے کوئی تبدیلی کی خبر دیکھنے اور سننے کو نہ ملی مجھے اس سے بھی انکار نہیں کہ کئی ایک دلکش منصوبے شروع بھی ضرور ہوئے مگر انہیں کسی نہ کسی طور پر مکمل ہونے سے قبل ہی روک دیا گیا اس میں کوئی شک نہیں کہ پشاور کی آبادی میں بہت ہی بے ترتیبی سے اضافہ ہوا ہے ”مسافروں اور مہاجروں“کی یہ ایک مستقل ”سرائے“بن گیا ہے۔ شہر نے اپنے چاروں طرف اسی طرح ہاتھ پاؤں پھیلا دیئے ہیں کہ اس پر ”پطرس کے لاہور“کا گمان ہونے لگایا شاید اس سے بھی آگے کی کوئی چیزبن گیاہے پطرس نے لاہور کے جغرافیہ میں لکھا ہے کہ لاہور کا محل وقوع کچھ یوں ہے کہ اس کے چاروں طرف اب لاہور ہی ہے بس پشاور کے بھی چاروں اور پشاور ہی پایا جاتا ہے اور یہ نئی آبادیاں جہاں باہر سے آنیوالوں اور کچھ کچھ شہروں نے مکان تو بے حد خوبصورت اور عمدہ بنا لئے ہیں مگران علاقوں کی گلیاں کوچے اور سڑکیں عام دنوں میں تو کسی حد تک گوارا ہوتی ہیں کہ گاڑیوں اور رکشاؤں میں اونٹ کی سواری کا لطف آتا ہے مگر بارشوں کے موسم میں یہ گلی کوچے صرف سکیننگ جاننے والوں کو ہی لطف دے سکتے ہیں باقی لوگوں کی زبان پرتو ایک ہی فقرہ ہوتا ہے ”داغ تو اچھے ہوتے ہیں“کون جانے ان نئی بستیوں کی منصوبہ بندی کسی کے ذمہ ہے کہ نہیں اور کیا ان نئی آبادیوں کے نقشے منظور کرانے کی روایت اب باقی ہے کہ نہیں اور اگر ہے تو کوئی ان نقشوں کے مطابق مکان بنانے والوں سے رابطہ میں رہتا ہے کہ نہیں اورکوئی ”وزٹ“کرتا ہے کہ دیکھا جائے کہ مکان اور  نقشہ میں کوئی راہ ورسم باقی رکھی گئی ہے یا نہیں مگر یہ طے ہے کہ ان جدید مکانوں کے دروازوں کے باہر کے مناظر گلی کوچوں کی حد تک دیکھنے کے لائق نہیں ہوتے‘ ان میں کچھ قصور یقیناًباسیوں کا بھی ہے کہ اپنے گھر کو صاف رکھنے کیلئے اپنی ہی گلی کو فلتھ ڈپوبنائے ہوئے ہیں انکا یہ مان کبھی پورا نہیں ہوتا کہ شہر کی صفائی پر مامور عملہ انکی گلی کا رخ کرلے بلکہ اس عملے کو تو ہر گلی کے مکینوں کی آنکھیں ترستیاں ہیں کئی بار کے واضح اعلانات اور دوٹوک احکامات کے باوجود کہیں سے بھی عمل درآمد کی خبر سنائی نہیں دی حتیٰ کہ میری بے گناہ آنکھوں نے تو اخبارات میں پھولوں کے ہار پہنے ہوئے ضلعی حکومت کے بڑوں کو خود صفائی کرتے دیکھا۔انکے ہاتھ میں آئے ہوئے جھاڑوکی شوبھا کچھ تو انکے ہاتھوں کی وجہ سے بڑھی اور کچھ ان پھولوں کے ہاروں کی وجہ سے جو شوق جذبات میں مکینوں اور حواریوں نے ان جھاڑؤں کو بھی پہنا دیئے تھے۔ چمن کے رنگ وبونے اس قدر دھوکے دئیے مجھ کو....کہ میں نے شوق گل بوسی میں کانٹوں پر زباں رکھ دی۔اس اقتباس کا حاصل مطالعہ ماضی اور حال کا موازنہ ہے، اگر چہ یہ یہاں کئی دہائیاں قبل کے حالات کی تصویر پیش کی گئی ہے تاہم آج کے حالات بھی اس سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہیں۔