کچھ جذبات اور احساسات اس قدر ناز ک ہوتے ہیں کہ ان کا ادراک کرنا اپنی جگہ اہم ہے، اس حوالے سے ناصر علی سیّد اپنی کتاب”ادب کے اطراف میں“میں خالد رؤف کی کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے اسی طرح کے خیالات کا اظہار کرتے نظر آرہے ہیں ”سطحی رومانیت اورغیر سائنسی رویوں کے گھٹا توپ اندھیرے میں جب ہماری حیات کو نا معلوم کا خوف بھی جکڑے ہوئے ہو‘خوابوں کے شبستان میں چند لمحے گزارتا آج جتنا مشکل اور پیچدہ عمل بن چکا ہے اس کا ادراک ہر تخلیق کا ر کو نہیں ہوتا اور یہیں سے چوتھے کھونٹ کا سفر شروع ہوتا ہے جس پر چلنے سے ہماری روایتی کہانیوں میں مسافروں کو منع کردیا گیا تھا۔یہ سفر مشکل ضرور ہوتا ہے مگر صرف اس وقت جب چلتے چلتے اچانک مسافر خاموشی کی بکل مارلیتا ہے کہ یہی خاموشی مسافر کو پتھر اور سفر کورائیگان کردیتی ہے۔ شاعری میں اسی موڑ پر جو تخلیق کار تخلیقی تجربوں سے انگلی چھڑا کر سفر جاری رکھنے کیلئے دوسروں کے خوابوں پر تکیہ کرتا شروع کردیتا ہے تو کاغذ پر بے معنی لفظوں کے ڈھیر خوداسی کا منہ چڑانے لگتے ہیں۔ اور جس تخلیق کار کواسی موڑپر اپنے اندر کے موسموں سے ہم آہنگ لفظوں سے
مکالمے کاہنر آجائے تو نہ صرف یہ ممنوعہ راستہ منزل تک اس کی رسائی کو ممکن بنادیتا ہے بلکہ وہ ہنر بھی سکھا دیتا ہے کہ چھلنی میں پانی لانا تک آسان ہو جاتاہے۔ خالد رؤف نے اسی موڑ سے ”آرزو کے پھول“کے حصول کے لئے اپنی ذات کو لفظوں کے ساتھ ملا کر ایک مکالمے کاڈول ڈالاہے اور بڑی حد تک وہ اس میں کامیاب بھی رہا ہے۔میں نے جان بوجھ کر بڑی حد تک کی قید لگادی ہے کہ چوتھی کھونٹ کے سفر میں ہر قدم ایک نئے منظر نامے سے واسطہ پڑتا ہے اور پھر ہر باراسے پوری شدت کے ساتھ بسر کیا ہی نہیں جاسکتا لیکن جہاں جہاں محبتوں کی پوری شدتوں کے ساتھ انہوں نے اس سفر کادرد کاغذ پر منتقل کیا ہے۔ وہ پڑھنے والے کے اندر آسانی اور سہولت سے سرایت کرجاتا ہے۔ باقی تخلیق کاروں کے برعکس اس پیراڈوکسی عمل پر مبنی
سفر میں خالدکو ایک اور مشکل بھی آرہی ہے کہ اس کا سفر آگے کی بجائے واپسی کا سفر ہے ہجرتوں کے دکھوں کو کاندھوں پر اٹھائے یہ واپسی کا سفر اتنا مشکل ہے اس کا اندازہ اک آرزو کا پھول کی کم وبیش ہر نظم کو پڑھ کر ہو سکتا ہے۔ میں نے ایک ایک نظم کو بار بار پڑھا ہے اور ہر بار مجھے احساس ہوا ہے کہ شاید خالد نے ایک ہی نظم کہنی تھی یا پھر اس نے ہر نظم کے دریچے سے ایک ہی منظر دیکھنا اور دکھانا تھا اور یہ نظر ایک طویل ہجر کا موسم ہے جو صدیوں پر محیط ہے۔مجھے یوں لگا جیسے ماضی کا کوئی لمحہ خالد کے اندر رک ساگیا ہے۔ کسی مہربان سے بچھڑنے کانا مہربان لمحہ تب سے اب تک اسے ”ہوم کمنگ“پر مجبور کررہا ہے۔ یہ لمحہ اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ اس سے زیادہ دور بھی نہیں ہے مگر جدائی کا درد کی شدت کوتو مکالمہ چاہتی ہے اور مکالمہ کا دروازہ بوجوہ بند پڑا ہے کیونکہ وہ بار بار کہتا ہے۔ ”تیرے ہونٹوں پہ لگی چپ کی ”سرگوشی سی“یا ”یہ تری گھگ زباں میرے لئے کافی ہے۔یہ کیسا فراق ہے یہ کیسا وچھوڑا ہے تجسیم ہوگیا ہے”بیٹھ جاتی ہو مرے پاس کی کرسی پہ کبھی“اور ”کسی یاد کی
مانند بکھر جاتی ہو“۔اور کبھی مکالمے کے لئے یہ پوچھنا ”کیوں مرے دل پہ لگا رہتا ہے تیرا پہرا“اور پھر خود کلامی کے انداز میں یہ کہنا ”تجھ سے ہٹ کر میں بھلا کس کا تصور باندھوں“ایک ایک مصرع ایک مہذب آواز کی خود کلامی ہے۔ جس پر کسی مہرباں سے زیادہ وقت اور حالات کی ستم کاریوں کا پہرا ہے‘ یہی ایک جیتا جاگتا خواب ہے جو آرزو کے پھولوں کی گزرگاہ بن گیا ہے اور خالد مڑ مڑ کرو ہیں لوٹ جانے کی بات کرتا ہے اور خود کو لمحہ موجود کے کسی منظر سے انجوائے نہیں کرنے دیتا۔ حالانکہ اب جہاں وہ ہے و ہاں کسی چیز کی کمی نہیں ہے۔سو خالد رؤف نے چوتھی کھونٹ کے جس سفر میں ذات اور لفظوں کو ہم آہنگی سے اپنے اندر رکے ہوئے ہجر اور و چھوڑے کے جس لمحے میں مکالمے کرنے میں اپنے ہجرتوں کے دکھ کم کرنے کی سعی کی ہے اور اپنا قبلہ مستقبل کی بجائے ماضی سے استوار کرنے کی ایک معصوم سی سعی کی ہے اس سے اس کی شاعری بھی عبارت ہے۔“اس اقتباس کا حاصل مطالعہ کسی کے اندر جھانکنے کی مہارت اور اس کے جذبات اور احساسات سے آگاہی حاصل کرنا ہے جو انسانوں کو ایک دوسرے سے جوڑے رکھتا ہے بچھڑنے نہیں دیتا۔