اہل قلم جب اپنی یادوں کو جمع کرکے قرطاس پر بکھیرتے ہیں تو یہ یادیں صرف ان کی ذات تک محدود نہیں ہوتیں ان کی تحریروں سے پورے علاقے اور شہر کی ثقافت نظر آتی ہے‘ کوہاٹ سے تعلق رکھنے والی نصرت نسیم نے اپنی خود نوشت ”بیتے ہوئے کچھ دن ایسے ہیں“ میں اپنے بچپن کی یادوں کے ساتھ اس وقت کے شہر اور سکول کے ماحول کی عکاس بھی کی ہے‘وہ لکھتی ہیں کہ یادوں کا ایک پشتارہ ہے‘ پٹاری ہے‘ بارات ہے کہ ایک سے ایک یاد بڑھتی چلی آ رہی ہے کسے لکھوں کسے چھوڑوں؟ ہر یاد‘ ہر منظر دامن دل کو کھینچے ہے کہ پہلے مجھے لکھو‘ تو چلیں 1970ء اور 1980ء کی دہائی کی بات کرنے سے پہلے کچھ اور پچھے ماضی کے اوراق پلٹتے ہیں۔1965ء سے پہلے کا دور ہے‘ میرے پرائمری سکول کا زمانہ ہے۔ یہ بہت بڑا سکول تھا۔ بڑے بڑے کشادہ کمرے‘ کھیل کے لئے وسیع میدان مع مسجد‘ تختی دھونے کے لئے بڑا سا تالاب جہاں بار بار جا کر تختی دھوتے‘ گاچی مٹی لگاتے اورسکھاتے ہوئے مخصوص گیت گاتے(افسوس اس وقت یاد نہیں آ رہے) روشنائی کی دوات میں اسے گاڑھا کرنے کے لئے گڑ ڈالتے‘ لکڑی کے قلم تراشنے کے لئے استانی صاحبہ کی مدد اکثر لینی پڑتی جو اسے خوب صورت سا تراش دیتی۔ سلیٹ کا استعمال بھی لازمی تھا۔ رنگ برنگے بیگ کسی کے خواب و خیال میں بھی نہیں تھے۔ کپڑے میں نیچے سلیٹ اور اوپر کتابیں رکھ کر باندھ لیا جاتا۔ چھوٹی کلاسز میں ایک دوہی کتابیں ہوا کرتی تھیں لہٰذا بڑی کلاس کی لڑکیوں کی طرح بستہ بھاری بنانے کے لئے گھر کی فالتو کتابیں بھی باندھ لیتے اور خوش ہوتے‘ سارے سکول میں ٹاٹ بچھے ہوئے تھے۔سال میں ایک آدھ دفعہ انسپکٹریس آف سکول کا دورہ ہوتا تو ہماری استانیوں اور ایڈمنسٹریس کی جان پر بن آتی۔ ایسی صفائی ستھرائی کرواتیں کہ سارا سکول لش لش کرتا‘ انسپکٹریس آف سکول باقاعدہ کلاسوں میں جا کر بچیوں سے سوال کرتیں‘ استانیاں بہت سادہ لباس میں ہوتیں میک اپ کا کوئی رواج نہیں تھا۔استانیاں محنتی و فرض شناس تھیں۔ پڑھنے کے علاوہ مٹی سے خربوزہ‘ انار‘ سیب اوردوسرے پھل وغیرہ بنا کر ان کے اوپر رنگ کیا جاتا تو لگتا اصلی پھل پڑے ہیں۔ انڈے کے خول کے اوپر روئی لگا چوزہ بنایا جاتا پھر پلاسٹک کی تاریں آئیں تو ان سے پرس بنانے لگے۔ ریڈی میڈسویٹر کہاں تھے بھلا‘ گھر میں خالائیں ہوں یا سکول میں اساتذہ کرام سب کے ہاتھوں میں اون اورسلائیاں لازمی ہوتیں‘گھر بھر کے لئے سویٹر جو بننے ہوتے اور سویٹر بھی سادہ نہیں دو دو تین تین رنگ کی اون سے طرح طرح کے ڈیزائن بنائے جاتے۔ بچوں کے لئے بازار میں چھوٹے سائز میں سلائیاں دستیاب تھیں۔ اکثر بچیوں کے پاس نہ ہوتیں تو لکڑی کی تیلیوں پر بنانے کی مشق کرتیں۔ ایک گھنٹے کا وقفہ ہوتا جسے تفریح کہتے۔ اس میں لڑکیاں رسی کودتیں‘ آنکھ مچولی کو کلا چھپا ئی‘گیند گیٹیاں اور چنیدرو کھیلتیں۔ پالش کی خالی ڈبیا میں مٹی بھر کر زمین پر کوئلے سے خانے کھینچ کر چیندرو کھیلی جاتی۔ کبھی اس پالش کی ڈبیا کا فون بنا لیا جاتا کبھی اسے ترازو کی شکل دے دی جاتی۔ گڑیا کپڑے سے بنائی جاتی۔ پراندے سے کالے دھاگے نکال کربال لگادیئے جاتے۔ مٹی کے خوبصورت مگ بھی بنائے جاتے۔
شہر میں جب برسات ہوئی تو ہم کو بچپن یاد آیا
وہ سونی خوشبو یاد آئی و ہ کچا آنگن یاد آیا
میرے وہ مٹی کے کھلونے اور وہ گھوڑا لکڑی کا
وہ کچی دیوار پرانی وہ میلا درپن یاد آیا
اس کے علاوہ اور بھی کھیل کود کی کئی ایسی سرگرمیاں ہوتیں جس میں لڑکیاں فارغ اوقات میں مصروف رہتیں اور وقت گزرنے کا احساس تک نہ ہوتا۔اس طرح کی تحریریں اپنے وقت اور ماحول کی عکاسی کرتی ہیں جن کے ساتھ انسان ماضی میں کھو جاتا ہے۔