گزشتہ چند دنوں کے دوران پاکستان میں ڈالر کی قیمت میں ریکارڈ 9.58 روپے کی کمی ہوئی ہے، جو ایک دن میں ڈالر کی قیمت میں ہونے والی کمی کا ملک میں نیا ریکارڈ ہے۔ڈالر کی قیمت میں مزید کمی ہوتی ہے تو اس کا فائدہ عام آدمی کو تیل اور دوسری خوردنی چیزوں کی قیمتوں میں کمی کی صورت میں ملے گا، کیونکہ پاکستان میں تیل، خوردنی تیل، گندم اور دالیں تک درآمد ہوتی ہیں جو ڈالر مہنگا ہونے کی وجہ سے پاکستان میں ماضی قریب میں کافی مہنگی ہوئیں۔یاد رہے کہ پاکستان میں جولائی کے مہینے میں مہنگائی کی شرح 25 فیصد تک چلی گئی تھی جس کی وجہ تیل مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ کھانے پینے کی چیزوں کی قیمتوں میں ہونے والا بے تحاشا اضافہ تھا۔ اس سے پہلے ایک دن میں سب سے بڑی کمی کا ریکارڈ دو نومبر 1998 کو بنا تھا جب ایک دن میں ڈالر کی قیمت 5.1 روپے کم ہوئی تھی۔ واضح رہے کہ کچھ عرصہ قبل پاکستان میں ڈالر کی قیمت 239.94 کی بلند ترین سطح پر تھی۔ تاہم بعد ازاں صورتحال تبدیل ہوئی۔اس کی سب سے بڑی وجہ تو درآمدی ادائیگیوں کے دباؤ کا کم ہونا ہے۔آئی ایم ایف کی جانب سے قرضے کی اگلی قسط کے جاری ہونے کے روشن امکانات نے بھی روپے کی قدر کو سہارا دیا۔جے پی مورگن کی جانب سے پاکستان کے ڈیفالٹ نہ کرنے کے بیان کے ساتھ پاکستان کی وزارت خزانہ اور سٹیٹ بینک آف پاکستان کے مشترکہ بیان نے بھی اس سلسلے میں کردار ادا کیا جس میں روپے کی قدر میں بہتری کا عندیہ دیا گیا تھا۔بڑی عید کے بعد ترسیلات زر میں بھی واضح ہوا اور ایکسپورٹرز بھی ڈالر مارکیٹ میں لا رہے ہیں جب کہ کم درآمدات کی وجہ سے امپورٹرز کی جانب سے ڈالر کی طلب بھی کم ہوئی ہے جس نے روپے کی قدر کو سہارا دیا اور اس میں ریکوری کا عمل گذشتہ کئی دنوں سے دیکھا جا رہا تھا۔روپے کی قدر میں اضافے کا جو رجحان نظر آ رہا ہے، اس کے مطابق تو ڈالر کی قیمت کو مزید گرنا چاہئے کیونکہ درآمدی ادائیگیوں کا دبا ؤکم ہے اور اس کے ساتھ آئی ایم ایف کی جانب سے جب پیسے مل جائیں گے تو اس کا بھی مزید مثبت اثر پڑے گا۔اگر اس وقت معاشی اشاریو ں کو دیکھیں اور امپورٹ کی صورتحال کو دیکھیں تو ڈالر کی قیمت کو 200 روپے تک گرنا چاہئے۔اگر اسی طرح امپورٹ کم رہی تو ہو سکتا ہے کہ ڈالر کی قیمت بہت تیزی سے اس مہینے میں مزید کم ہو۔جو کمی ہوئی اگر اس کا رجحان برقرار رہتا ہے تو اس کا فائدہ لازمی طور پر مقامی صارفین کو تیل کی قیمت میں کمی کی صورت میں ہو گا۔اگر ڈالر کی قیمت میں ہونے والی دس روپے کی کمی کو ایک دن میں لیا جائے تو اس سے دس سے پندرہ روپے کمی کا فائدہ تیل کی ایک لیٹر قیمت کی صورت میں صارفین کو ملے گا تاہم اس کے لئے ضروری ہے کہ یہ رجحان برقرار رہے اور جب اوسط نکالی جائے تو ڈالر کی قیمت میں کمی کی وجہ سے تیل مصنوعات کی درآمدی لاگت ڈالروں میں کم ہو۔ڈالر کی قیمت میں ہونے والی کمی کا سب سے بڑا فائدہ تو حکومت کو یہ ہو گا کہ حکومت کے بارے میں عوام کا عمومی تاثر بہتر ہو گا اور لوگوں کو یہ تاثر ملے گا کہ اب حالات کنٹرول کی جانب جا رہے ہیں۔کیونکہ جب ڈالر کی قیمت میں بے تحاشا اضافہ ہو رہا تھا تو حکومت کے بارے میں منفی تاثر نے جنم لیا تھا کہ معاملات حکومت کے بس سے باہر ہو رہے ہیں جب ڈالر کی قیمت میں کمی کی وجہ سے تیل مصنوعات اور دوسری چیزوں کی قیمتوں میں کمی ہو گئی تو لازمی طور پر اس سے مہنگائی کی شرح میں بھی کمی ہو گی جو عوام کے فائدے کے لیے ہو گی،اس سے حکومت کے لیے معاشی فائدہ بھی ہو گا کیونکہ روپے کی قدر میں استحکام سے معاشی استحکام پیدا ہو گا اور معاشی اشاریوں میں بہتری آئے گی جو حکومت کے بارے میں عمومی طور پر ایک بہتر تصور کو جنم دے گی جو گذشتہ کئی ہفتوں میں معاشی اشاریوں کے بگڑنے کی وجہ سے حکومت کے لیے مشکلات پیدا کر رہا تھا۔وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کا قوم کو یہ مژدہ سنانا کہ تین ماہ میں معاشی حالات بہتر ہوجائیں گے،بے بنیاد نہیں۔ چار ماہ پہلے قومی معیشت انہیں اس حال میں ملی تھی کہ ملک دیوالیہ ہونے کے دہانے پر تھا۔ ان حالات میں آئی ایم ایف سے معاہدے کی بحالی اس کی شرائط پوری کیے بغیر ہرگز ممکن نہ تھی جبکہ اتحادی حکومت کیلئے عالمی ادارے کی شرائط پوری کرکے عوام کو مہنگائی کے منہ زور سیلاب سے دوچار کرنے کا مطلب بظاہر سیاسی خود کشی تھا۔تاہم حکومت نے حوصلے کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے دعوے کے مطابق ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کی خاطر درپیش چیلنج سے نمٹنے اور اس مقصد کے لیے درکار مشکل فیصلے کرڈالنے کی راہ پر پیش قدمی کی۔ اس کا نتیجہ بے پناہ مہنگائی کی شکل میں سامنے آیا،ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں ہولناک گراوٹ شروع ہوگئی ہے، پچھلے چند روز سے مشکل فیصلوں کے مثبت نتائج کی آمد کا خوش آئند سلسلہ جاری ہے۔ ڈالر کے مقابلے میں روپیہ توانا ہورہا ہے، سٹاک ایکسچینج کی رونقیں بحال ہوگئی ہیں جبکہ عالمی منڈی میں تیل کے نرخوں میں بھی نمایاں کمی واقع ہورہی ہے۔ ان اسباب کے باعث معاشی مشکلات کی دلدل سے ملک کے باہر آجانے کے امکانات روشن ہوئے ہیں اور قومی سطح پر اعتماد کی فضا پیدا ہوئی ہے۔ وزیر خزانہ نے گزشتہ روز اسی خوشگوارماحول میں کراچی چیمبرآف کامرس اینڈ انڈسٹری کے دورے کے موقع پر تجار وصنعتکاروں سے خطاب کیا۔ انہوں نے صاف گوئی سے کام لیتے ہوئے کہا کہ ستمبر تک مشکلات رہیں گی، معاشی پالیسی کے مختلف پہلووں پر روشنی ڈالتے ہوئے وزیر خزانہ نے بتایا کہ گزشتہ سال ہم نے 80ارب ڈالر کی درآمدات جبکہ 31ارب ڈالر کی برآمدات کی ہیں، یہ تناسب اگر الٹ ہوتا تو آج ہمیں کسی سے مدد مانگنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔ وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ معیشت کے مسائل امپورٹ کو کم کرنے سے حل ہوگئے ہیں، تین ماہ تک امپورٹ نہیں بڑھنے دیں گے۔ وزیر خزانہ کے مطابق ڈالر کی قدر بھی درآمدات کو کنٹرول کرنے کی وجہ سے طلب اور رسد کے معاشی اصول کے مطابق نیچے آئی ہے جبکہ بعض بینکوں کی سٹہ بازی بھی ڈالر کی اونچی اڑان کا سبب تھی۔ وزیر خزانہ نے وضاحت کی کہ ایل سیز کی کوئی ادائیگی نہیں روکی نہ روکیں گے، صرف3دن میں امپورٹرز کیلئے ایل سی کھل جاتی ہے۔متحدہ عرب امارات کی سٹاک ایکسچینج میں سرمایہ کاری کو انہوں نے بجاطور پر بہت مفید قرار جس کے بڑے مثبت اثرات ہماری معیشت پر مرتب ہوں گے۔ بلاشبہ موجودہ حکومت کی معاشی حکمت عملی موثر ثابت ہورہی ہے تاہم اس کا تسلسل اسی صورت میں ممکن ہے جب ملک میں سیاسی استحکام ہو اور معاملات ہموار طریقے سے آئین و قانون کے مطابق چلتے رہیں اوراس بات کو یقینی بنانا حکومت ہی کی نہیں، اپوزیشن اور تمام ریاستی اداروں کی بھی یکساں ذمے داری ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ڈالر زیادہ آ رہے ہیں اور روپے کو استحکام مل رہا ہے، اس ماہ بھی درآمدات کنٹرول میں ہیں۔جون اور جولائی کے کم امپورٹ بل نے روپے کو بڑا سہارا دیا ہے، ڈالر کو خریدنے والا کوئی نہیں اور ڈالر بیچنے والوں کی قطاریں لگی ہوئی ہیں۔ آئی ایم ایف پروگرام بحال ہوتے ہی ڈالر 185 سے 190 روپے کا ہو جائے گا۔