سفر نامہ لکھنا ایک فن ہے اور اس حوالے سے مستنصر حسین تارڑ کا نام سند کی حیثیت رکھتا ہے، ان کے سفر نامے جہاں معلومات سے لبریز ہوتے ہیں وہاں کسی بھی مقام کی سیاحت کرتے ہوئے وہ فطری مناظر کی ایسی عکاسی کرتے ہیں کہ بے ساختہ انسان کادل اس مقام کو دیکھنے کیلئے بے چین ہونے لگتا ہے،ایک مقام پر وہ اپنے سفرنامے میں پاکستان کے شمالی علاقوں کے حسن کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ”پاکستانی شمال ایک سحر انگیز خطہ ہے جس کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے‘یہ بندے کو سودائی کر دیتاہے‘ شیدائی کر دیتا ہے‘جونہی موسم گرما کا آغاز ہوتا ہے۔ فیئری میڈو کی برفوں میں سے سٹرابیری کا پہلا پھول نمودار ہوکر بہار کی نوید دیتا ہے‘کرومبر جھیل پر چلتے ہوئے یاکوں کے قافلے محسوس کرتے ہیں کہ ان کے سموں تلے جو منجمد برف تھی اسکے پگھلنے کے دن آ گئے ہیں‘ پھنڈر جھیل کے پانیوں میں ٹراؤٹ مچھلیاں اچھلنے لگتی ہیں اور سنولیک کی برفوں پر پہلی تتلیاں اڑان کرنے لگتی ہیں تو وہ دن ہوتے ہیں جنکے بارے میں کہا جاتا ہے کہ دل عشاق کی خبر لینا‘ پھول کھلتے ہیں ان مہینوں میں تو یہ وہ دن ہوتے ہیں جب شمال کے شیدائیوں کے دلوں میں پہاڑیوں کے جنون کے پھول کھلتے ہیں اور وہ بیتاب اور بے اختیار ہو کر ان خطوں کا رخ کرتے ہیں‘ میں تذکرہ کر چکا ہوں کہ ”ہرکاش ناقابل فراموش“ کی کوہ نوردی سے پیشتر گلگت بلتستان کے چیف منسٹر نے ازراہ کرم نہ صرف مجھے شمال کے بارے میں پندرہ کتابیں تحریر کرنے کے ’جرم‘میں ایک خصوصی ایوارڈ سے نوازا بلکہ شمال کے بارے میں ہر برس بہترین ڈاکومنٹری اور بہترین کتاب تخلیق کرنے پر میرے نام کا ایک ایوارڈ بھی جاری کرنے کا اعلان کیا‘ اللہ جانے اس ایوارڈ نے اعلان کے ساتھ ہی دم توڑ دیا یا وہ ابھی تک جاری ہے‘اس موقع پر انہوں نے ازراہ تفنن مجھ سے کہاکہ تارڑ صاحب شمال میں جو بیشتر لوگ آئے وہ آپ کی کتابیں پڑھ کر آئے لیکن اب آپ سے درخواست ہے کہ کوئی ایسی کتاب لکھئے جس میں عوام الناس سے التجا ہو کہ پلیز آپ ذرا کم کم شمال آئیے‘ ان کا کہنا تھا کہ اس برس عید کے فوراً بعد تقریبا بائیس ہزار کاریں اور کوسٹر شمال میں داخل ہوئے جبکہ گلگت بلتستان میں کل باون ہزارکاریں اور بسیں وغیرہ ہیں تو ہم ان بائیس ہزار کاروں وغیرہ کیلئے اتنا پٹرول کہاں سے لائیں‘ پورے خطے میں ہوٹلوں میں کل چھ ہزار بستر ہیں اور وہ تقریباً پچاس ہزار سیاحوں کیلئے کیسے کافی ہو سکتے ہیں تو ذرا کم کم آئیے۔ ویسے ایک عجب تبدیلی رونما ہوئی ہے کہ پاکستانی یکدم شمال کے عشق میں مبتلا ہو گئے
ہیں‘موسم گرما میں سیاحوں کے انبار کاغان کی وادیوں میں جاگرتے ہیں‘ہوٹلوں میں جگہ نہیں ملتی۔موسم گرما میں شمال کی جانب سفر کرنیوالے دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں‘ایک وہ جو اپنے خاندان یا کسی گروپ کے ہمراہ شدید گرمی سے فرار ہو کر چند روز بلند پہاڑوں میں بسر کرنے کے متمنی ہوتے ہیں‘انہیں تفریح کی خاطر کچھ ہنگامہ کچھ ہلا گلا درکار ہوتا ہے‘ مثلاً ہنزہ کے کریم آبادمیں ایک صاحب بیگ پیک اٹھائے گلے میں ہائکنگ بوٹ تسموں سے لٹکائے چلے آ رہے ہیں مجھے دیکھ کر رک جاتے ہیں اور الفت کا اظہار کرتے ہیں ”تارڑ صاحب میں کراچی کے ایک سکول میں ٹیچر ہوں۔ گرمیوں کی چھٹیاں آتی ہیں تو کوہ نوردی کا سامان کاندھے پر ڈال کر شمال کی جانب چل دیتا ہوں۔ سکردو یا گلگت سے بلند پہاڑوں میں جانیوالی کسی مہم کے لیڈر سے درخواست کرتا ہوں کہ اگر میں آپکے پیچھے پیچھے چلتا آؤں‘میرے پاس اپنی خوراک اور ذاتی خیمہ ہے تو آپ کو کوئی اعتراض تو نہیں‘اکثر وہ بخوشی مجھے ساتھ لے جاتے ہیں لیکن ان کی منزل میری منزل نہیں ہوتی‘راستے میں کہیں بھی جب کوئی وادی مجھے ویران اور اجنبی لگتی ہے مہم سے جدا ہو کر تنہا اس تنہائی میں داخل ہو جاتا ہوں‘میں نے ایسے ایسے منظر دیکھے ہیں جو آج تک شاید ہی کسی نے دیکھے ہوں۔“ ا س منتخب اقتباس کا حاصل مطالعہ سفر وسیلہ ظفر ہے، یعنی سفر کے دوران جو تجربات اور مشاہدات انسان کی زندگی کا حصہ بن جاتے ہیں، معمول کی زندگی میں اس کاحصول شاید ممکن نہ ہو۔