مشہور مصنف اور دانشور اشفاق احمد کی نشری تقاریر کی خاص بات ان کا دلچسپ انداز اور معمول کے واقعات میں سے درس وعبرت کا سامان مہیا کرنا ہے۔ان کی نشری تقاریر میں سے اقتباس حاضر ہے جس میں اشفاق احمد عجلت و جلد بازی کے حوالے سے بیان کرتے ہیں ”یہ عجیب انسانی فطرت ہے کبھی آپ اس کا مطالعہ کریں تو آپ کو یہ عجیب لگے گی خاص طور پر کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جب ہم نے خواہش پیدا کردی تو وہ پوری ہو۔ سب سے پہلے تو آپ کے ذہن میں یہ بات پیدا ہوتی ہے کہ اس کو فوراً پورا ہونا چاہئے یہی ہے نا ٗکبھی آپ آئس کریم جمائیں ٗ آپ نے آئس کریم والی مشین تو دیکھی ہوگی نا۔ اب تو بجلی والی آگئی ہے ٗ تو آئس کریم جمانے بیٹھیں تو خدا کے واسطے اس کا ڈھکنا بار بار نہ کھول کر دیکھتے رہیں کہ جمی ہے یا نہیں۔ اس طرح تو وہ کبھی بھی نہیں جمے گی۔ آپ اس کی راہ میں کھڑے نہ ہوں۔ جب آپ نے تہیہ کر لیا ہے کہ اس کو بننا ہے ٗاس میں سارا مصالحہ ڈال کر مشین کو چلانا شروع کردیں اور اس وقت کا انتظار کریں جب وہ پایہ تکمیل کو پہنچے۔میری اور میری آپ کی ایک بڑی بے چینی ہوتی تھی کہ ہم نے اپنی چتری مرغی کے نیچے انڈے رکھے تھے کہ اس میں چوزے نکلیں گے اور ہم دونوں اس بات کے بہت شوقین تھے اب اس کے تیئس دن بعد چوزوں کو نکلنا تھا ٗہم میں یہ خرابی تھی کہ ہر تیسرے چوتھے دن بعد ایک دو انڈے نکال کر انہیں سورج میں کرکے دیکھتے تھے ٗآیا ان کے اندر ایمبریو بنا ہے کہ نہیں ٗتو خاک اس میں سے چوزا نکلنا تھا بار بار اٹھاکے دیکھتے تھے اور پھر جا کر رکھ دیتے تھے آخر میں ہماری والدہ نے کہا خدا کے واسطے یہ نہ کیا کرو۔یہ میں آپ کو جیسے کہ پچھلی باتیں بتا رہا تھا اور آئس کریم کی مثال دے رہا تھا‘ ہمارے گھر میں بچے اس وقت بڑے ہو چکے تھے میں تو فرسٹ ائیر میں تھا ہمارے گھر میں ایک کیمرہ آیا اس زمانے میں کیمرہ آنا بڑی کمال کی بات تھی باکس کیمرے بہت کم ہوتے تھے باکس کیمرہ آیا ہمارے قصبے میں آیا لوگ بڑی بڑی دور سے گھوڑوں پر بیٹھ کر دیکھنے آئے اور انہوں نے کہا کہ خان صاحب کے گھر کیمرہ آیا ہے انہوں نے کہا جی‘کوئی تصویر کھینچنی ہے ٗذیلدار صاحب آئے اونٹ پر سوار ہو کے کہ تصویر کھینچنی ہے۔بڑے بھائی بی اے میں پڑھتے تھے ان کو اباجی نے باکس کیمرہ لادیا اب اس میں فلم ڈال کے اس زمانے میں شیشے کی پلیٹ ہوتی تھی پتلی سی Negativeکھینچنے کے لئے اس کو ڈال کے تصویر کھینچی ٗ تو پھر ہم بھائی کے گرد جمع ہوگئے ہمیں نکال کے دکھائیں کیسی ہوتی ہے اس نے کہا نہیں ابھی نہیں۔ہم نے کہا ٗ اس کا پھر کیا فائدہ۔ کیمرہ تو یہ ہوتا ہے آپ نے تصویر کھینچی ہے اور ابھی پوری ہو۔تو ہم کو یہ بتایا گیا کہ اس وقت نہیں آتی ہے تصویر لیکن آتی ضرور ہے لیکن ہماری یہ تربیت نہیں تھی ٹریننگ نہیں تھی ہم چاہتے تھے ابھی ہوا ہے تو ابھی اس کا رزلٹ ہمارے سامنے آئے ٗاور ہم کو اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے“ اس منتخب اقتباس کا حاصل مطالعہ یہی ہے کہ سرسوں ہتھیلی پر نہیں جمتی، بلکہ ہر کام کے نتائج سامنے آنے میں متعین وقت لگتا ہے اور بسا اوقات جلد بازی اور عجلت بنے بنائے کام بگاڑ دیتی ہیں۔