باتیں جو ہمیشہ یاد رہیں  (سید ابو یاسر)

بہت سارے واقعات یاد رکھے جانے کے قابل ہوتے ہیں تاہم وہ بھول اس لئے جاتے ہیں کہ ان کو پیش کرنے والا منظرکشی درست انداز میں نہیں کرتا بہت ساری سیدھی باتیں اشفاق احمد(مرحوم) اس انداز میں کرتے کہ وہ ذہن پر خوبصورت انداز میں نقش ہو جاتیں‘ وہ اپنی یادداشتوں میں لکھتے ہیں کہ یہ پاکستان بننے سے پہلے کی بات ہے‘اس وقت ہمارے لاہور میں ایک کافی ہاؤس ہوتا تھا‘ وہاں بڑے سینئر ادیب رات گئے تک نشست کرتے تھے تو ہم بھی انکے پاس بیٹھ کر ان سے باتیں سیکھتے تھے‘ میں رات دیر سے گھر آتا تھا‘میری ماں ہمیشہ میرے آنے پر ہی اٹھ کر چولہا جلاکر روٹی پکاتی تھی‘ میں ماں سے ہمیشہ کہتا تھا کہ آپ روٹی رکھ کر سوجایا کریں‘تو وہ کہتی تو رات کو دیر سے آتا ہے میں چاہتی ہوں کہ تجھے تازہ پکا کر روٹی دوں‘ میں نے ان سے یہاں تک کہہ دیا کہ اگر آپ اسی طرح رات دیر سے اٹھ کر روٹی پکاتی رہیں‘تو میں پھر کھانا ہی نہیں کھاؤں گا ایک دن یونہی رات دیر سے میرے آنے کے بعد ’پھلکا‘ (تازہ روٹی) پکاتے ہوئے انہوں نے مجھ سے پوچھا’کہاں جاتا ہے؟ میں نے کہا اماں‘ میں ادیب بن رہا ہوں کہنے لگیں‘وہ کیا ہوتا ہے؟ میں نے کہا‘اماں! لکھنے والا‘ لکھاری وہ پھرگویا ہوئیں تو پھر کیا کریگا؟ میں نے کہا میں کتابیں لکھا کروں گا وہ کہنے لگیں‘ اینیاں اگے پیاں جیہڑیاں کتاباں اونہاں دا کی بنے گا؟ میں نے کہا‘ نہیں! نہیں‘ میں اور طرح کا رائٹر بنوں گا اور میں سچ اور حق کیلئے لڑوں گا‘میری ماں کچھ ڈر گئی‘ اس نے میری طرف دیکھا اور کہنے لگی اگر تونے یہی بننا ہے جو تو کہتا ہے اور تونے سچ ہی بولنا
 ہے تو اپنے بارے میں سچ بولنا لوگوں کے بارے میں سچ بولنانہ شروع کردینا یہ میں آپ کو بالکل ان پڑھ عورت کی بات بتا رہا ہوں سچ وہ ہوتا ہے جو اپنے بارے میں بولا جائے‘جو دوسروں کے بارے میں بولتے ہیں‘ وہ سچ نہیں ہوتا‘ایک اور مقام پر اشفاق احمد لکھتے ہیں کہ میرا پوتا‘ جواب بڑا ہوگیا ہے‘ اسکی ماں نے کہا کہ تمہاری اردو بہت کمزور ہے تم اپنے دادا سے اردو پڑھا کرو‘خیر! وہ مجھ سے پڑھنے لگا‘ پرسوں مجھ سے پوچھ رہا تھا کہ دادا! یہ آمدورفت جو ہے‘ اس میں عام طور پر کتنا فاصلہ ہوتا ہے؟(اس نے یہ لفظ نیانیا پڑھا تھا) اب اس نے ایسی کمال کی بات کی تھی کہ میں اس کا کوئی جواب نہیں دے سکتا تھا پھر اس نے مجھ سے کہا کہ دادا! کیا نفسیات کی ایسی کوئی کتاب ہے‘ جس میں آدمی کو پرکھنے کے اچھے سے اور آسان سے طریقے ہوں؟ تو میں نے کہا کہ بھئی! تمہیں آدمی کو پرکھنے کی کیا ضرورت پیش آرہی ہے؟ اس نے کہا کہ پتہ تو چلے کہ آخر مدمقابل کیساہے؟  میں نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ اس کو چیک کرنے کی ضرورت نہیں‘ لیکن تم ایسا چاہتے ہیں ہو تو ظاہر ہے علم نفسیات میں بہت ساری ایسی کتابیں ہیں۔لیکن وہ ساری کی ساری اتنی ٹھیک نہیں جتنی ہمارے ہاں عام طور پر سمجھی جاتی ہیں ہماری استاد تو ہماری تائی تھی‘جسے سارا گاؤں ہی ’تائی‘ کہتا تھا‘ہماری تائی تیلن تھی تیل نکالتی تھی اور کچی گھانی کا خالص سرسوں کا تیل بیچتی تھی سارے گاؤ ں والے اس سے تیل لیتے تھے‘ میں جب اس سے ملا تو اس کی عمر 80برس کی تھی میں اسوقت آٹھویں جماعت میں پڑھتا تھا‘ لیکن مجھے اس تائی کی شخصیت نے متاثر بہت کیا وہ اتنی خوش مزاج‘اتنی خوشی عطا کرنیوالی اور خوش بختی کا سامان مہیا کرنے والی تھی کہ جس کاحساب نہیں۔ اس تحریر کا حاصل مطالعہ یہ ہے کہ بہت ساری آسان  پیرائے میں ہونیوالی باتیں اپنے اندر وسیع مفہوم رکھتی ہیں بات صرف سننے والے کے احساس و ادراک کی ہے۔