مزے کی زندگی (سید ابو یاسر)

خوشیوں کے بغیر زندگی بے مزہ ہوتی ہے اس لئے انسانی خواہشوں میں ہر قیمتی شے پر قابض ہونا یا اس کا حصول سرفہرست ہوتا ہے‘اس سے وہ محض شیخی ہی بگھارتا ہے یہ خوشی دیر پا نہیں ہوتی۔مشہور مصنف اور دانشور اشفاق احمد اپنی نشری تقاریر میں ایک مقام پر بیان کرتے ہیں کہ آپ اگر اپنے گھروں میں غور کریں تو آپ کو احساس ہوگا کہ ہر بندہ اپنی اپنی بیماری سے چمٹا ہوا ہے اور مثبت زندگی گزارنے کی طرف کسی کا کوئی ارادہ نہیں ہے میں یہ بات بھی جانتا ہوں اور محسوس بھی کرتا ہوں کہ ہمارے سب کے مالی حالات اتنے اچھے نہیں ہیں‘جتنے ہونے چاہئیں لیکن اس کے باوصف گزارہ چلتا تو ہے نا! میں عمر کے بالکل آخری حصے میں ہوں لیکن میں آپ کو بتاؤں کہ 1964ء میں ہمارا یہ ٹی وی سٹیشن چلا تھا اس وقت میں جو کماتا تھا یا جو میری تنخواہ تھی اور اب جو کچھ میں کماتا ہوں اس میں بڑا فرق ہے‘ اس وقت میری کمائی کا ستر فیصد حصہ ان چیزوں پر لگ رہا ہے جو 1964ء میں موجود ہی نہیں تھیں‘ اور میں حلفیہ کہتا ہوں کہ میں سن چونسٹھ میں بھی زندہ تھا اس زمانے میں فوٹو سٹیٹ کی مشین نہیں تھی شیمپو نہیں ہوتے تھے‘ جبکہ آج ٹی وی کے اشتہاروں سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ شیمپو کا ہے کہ کون سا شیمپو استعمال کیا جائے اور ہمارے بچے شیمپو کے انتخاب کے عذاب میں مبتلا ہیں اگر سب عذاب اکٹھے کئے جائیں تو زیادہ عذاب ایسے ہیں جو 1964ء میں موجود نہیں تھے لیکن ہم بڑے مزے کی زندگی گزارتے تھے‘کیا ہم اس عذاب سے باہر نہیں نکل سکتے؟ کیا ہم اپنی بیماری کو اس طرح کلیجے سے لگا کر بیٹھے رہیں گے؟ یہ خوشی ایسی چیز ہے جو صرف اندر سے ہی پیدا ہوتی ہے‘یہ باہر سے نہیں لی جا سکتی‘ آج کے بچے کہتے ہیں کہ اگر ہمارے پاس چیزیں زیادہ اکٹھی ہوں گی تو ہمارے پاس زیادہ خوشیاں ہوں گی‘ میری بہو کہتی ہے کہ اگر اس کے پاس زمرد کا ہار ہو تو وہ بڑی خوش ہو وہ مجھے کہتی ہے کہ ماموں اگر دو ہار بن جائیں تو پھر بڑی بات ہے‘ میں نے کہا اچھا میں تمہیں لا دیتا ہوں۔ وہ کہنے لگی 35ہزار کا ہے‘ میں نے کہا کوئی بات نہیں‘لیکن یہ بتاؤ کہ وہ لے کر تم کتنے دن خوش رہوگی‘کہنے لگی میں کافی دن خوش رہوں گی‘ میں نے کہا کہ تم اپنی سہیلیوں کے سامنے شیخی بگھار لوگی کہ میرے پاس یہ سیٹ بھی آگیا ہے‘پھر کیا کروگی وہ مجھے کہنے لگی کہ Posessionکا ایک اپنا نشہ ہوتا ہے اور یہ خمار ہوتا ہے کہ فلاں چیز میرے قبضے میں ہے‘ میں نے کہاکہ پیارے بچے! میں تم سے یہ پوچھتا ہوں کہ اتنی ساری قیمتی چیزیں اکٹھی کرکے جب تم سوتی ہو تو یا سونے لگتی ہو تو ان ساری چیزوں سے تمہارا تصرف تو ٹوٹ جاتا ہے اور میں تمہیں جب کبھی جگاتا ہوں تو تم کہتی ہو ماموں بس دو منٹ اور سو لینے دیں یعنی جو خوشی آپ کے اندر سے پیدا ہو رہی ہے وہ زیادہ عزیز ہے اور وہ جو Posessionآپ نے اکٹھے کئے ہوئے ہیں وہ اس وقت آپ بھلائے ہوئے ہوتی ہیں‘ لیکن اس بات پر ہم نے کبھی غور ہی نہیں کیا۔ایک اور مقام پر اشفاق احمد لکھتے ہیں کہ اب بندہ بندے سے ملنا پسند نہیں کرتا ہے‘ اس کا وہ پہلے سا رشتہ نہیں رہا ہے اور اب یہ تعلق اور رشتے ایک خواب بن چکے ہیں‘ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ ڈھیر سارے ڈالر آجانے سے آپ Rich ہوجائیں گے‘ ہرگز ایسا نہیں ہوگا‘ آپ کے پاس پیسہ تو ہوگا لیکن آپ کی محرومیاں بڑھتی چلی جائیں گی‘ اس کا سدباب ابھی سے کرنے کی ضرورت ہے‘  جوں جوں انسان کے درمیان فاصلے ہوتے جارہے ہیں اور نظر نہ آنے والی دراڑیں پڑتی جاتی ہیں‘ انسان بیچارہ ان فاصلوں کو پیسوں کی کمی سے جوڑ رہا ہے اور اس نے سارا زور معاشی پوزیشن بہتر کرنے پر لگا رکھا ہے‘ میں سوچتا ہوں کہ اگر معاشی صورتحال اچھی ہوگئی اور انسانوں کا منہ ایک دوسرے کے مخالف رہا تو پھر ان پیسوں‘ ڈالروں کا آخر کیا فائدہ ہوگا؟ اس لئے ہمیں اپنے اپنے طور پر سوچنا پڑے گا کہ چاہے ایک دوسرے سے لڑائی ہوتی رہے لیکن وچھوڑا تو نہ ہو۔