چراغ سے چراغ جلے (سید ابو یاسر)


  کسی بھی معاشرے میں ادبی سرگرمیوں کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ یہاں پر تخلیقی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے کے مواقع زیادہ سامنے آتے ہیں۔ اس طرح ایک اور پہلو ان ادبی سرگرمیوں کا یہ ہوتا ہے کہ اس سے مختلف الخیال لوگوں کو ایک دوسرے کی رائے سے آگاہی ہوجاتی ہے اور معاشرے میں ایک طرح سے ہم آہنگی اور یگانگت کا ماحول پروان چڑھتا ہے۔ تاہم ادبی سرگرمیاں تب ہی فروغ پا سکتی ہیں جب یہ منظم انداز میں ہوں اور اس کیلئے ادبی تنظیموں کا کردار اہم ہوتا ہے۔ ایک نتظیم کی داغ بیل ڈالنا اور اسے پھر اس قابل بنانا کہ وہ مطلوبہ مقاصد کے حصول میں معاون ہوں کوئی آسان کام نہیں، وطن عزیز میں ادبی تنظیموں کا کردار ہمیشہ اہمیت کا حامل رہا ہے معروف براڈ کاسٹر آغا ناصر رائٹرز گلڈ کے حوالے سے اپنی یادداشتوں میں لکھتے ہیں ”1958ء میں شاہد احمد دہلوی‘قرۃ العین حیدر اور جمیل الدین عالی نے رائٹرز گلڈ کی داغ بیل ڈالی قدرت اللہ شہاب کو اس کا سیکرٹری جنرل بنایا گیا اور یوں ادیبوں کا ایک بڑا ادارہ وجود میں آیا کراچی ریجن کی گلڈ میں میرا نام بھی شامل تھا ریجن کے سیکرٹری طفیل احمد جمالی تھے وہ مجھے بہت پسند کرتے تھے انہوں نے مجھے ریجن کے الیکشن میں اپنے پینل میں شامل کرلیا اس طرح میں پاکستان رائٹرز گلڈ کی ایگزیکٹو کا ممبر منتخب ہوگیا اب ادبی حلقوں میں میرا رتبہ اور بلند ہوگیا‘کراچی کے نامور ادیبوں‘شہرت یافتہ شاعروں اور دانشوروں سے میری ملاقاتوں کے سلسلے بڑھتے گئے پھر جب ایک کل پاکستان کنونشن میں شرکت کیلئے لکھنے والوں کا وفد ملتان گیا تو میں بھی اس میں شامل تھا اس کنونشن میں جو خواجہ فریدؒ کے عرس کے موقع پر منعقد کیا گیا تھا سارے ملک سے ادیب اور شاعر شرکت کے لئے آئے تھے اس موقع پر میری ملاقات بہت سی ایسی شخصیات سے ہوئی جن سے گفتگو کرنے کی خواہش ہمیشہ سے میرے دل میں تھی‘گلڈ کے قیام کے سلسلہ میں شہاب نے اپنی کتاب’شہاب نامہ‘ میں اسکا تفصیلی ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے ایک روز میں اپنے دفترمیں بیٹھا کام کررہا تھا کہ اچانک قرۃ العین حیدر‘جمیل الدین عالی‘ غلام عباس‘ابن الحسن اور عباس احمد عباسی تشریف لائے باتوں باتوں میں انہوں نے کہا کہ آج کل ہر محفل میں گفتگو کا رخ مارشل لاء کی طرف مڑ جاتا ہے‘ ادیبوں میں بھی اس موضوع پر مختلف النوع خیال آرائیاں ہوتی رہتی ہیں چند دوستوں کا خیال ہے کہ اب تک ہمارے ملک میں ادیبوں کی فلاح وبہبود کیلئے کسی نے سوچا ہے نہ کبھی کچھ کہا ہے‘ آج کل جب یہ  حکومت زندگی کے ہرشعبہ میں تعمیر‘ ترقی و بہبود کے نت نئے کام کرنے کی کاوش کررہی ہے تو موقع ہے کہ اس بات کو آزماکر دیکھیں کہ حکومت کے بلند وبانگ دعوؤں میں ادیبوں کی ویلفیئر کیلئے بھی کوئی گنجائش نکل سکتی ہے یا نہیں؟انہوں نے مزید بتایا کہ بابائے اردو کی موجودگی میں بھی یہ تذکرہ آچکا ہے اور وہ بھی اس قسم کی کوشش کے حق میں مائل نظر آتے ہیں‘چند روز بعد یہی حضرات دوبارہ تشریف لائے اور اپنے ساتھ ایک اعلان کا مسودہ بھی لائے جو انہوں نے ادیبوں کا کنونشن بلانے کیلئے تیار کیا تھا‘29,30,31 جنوری 1959کو کل پاکستان رائٹرز کنونشن کراچی میں منعقد ہوا جس میں ملک بھر سے 212ادیب شریک ہوئے سب مندوبین نے اتفاق رائے سے گلڈ کی بنیاد ڈالی دی‘کنونشن کے افتتاحی اجلاس سے صدر ایوب نے بھی خطاب کیا آخری اجلاس میں گلڈ کا دستور منظور ہوا اور انتخاب کے ذریعہ قدرت اللہ شہاب کو صدر‘ عبدالعزیز خالد کو خازن اور جمیل الدین عالی کو افسر رابطہ منتخب کیاگیا۔“اس اقتباس کا حاصل مطالعہ ان شخصیات کی کاوشوں اور محنت سے آگاہی ہے جو کسی خاص مقصد کے حصول میں خلوص نیت سے شریک ہوتے ہیں اور ان کی محنت بالاخر رنگ لے آتی ہے۔ اور اس سلسلے میں وہ دن رات جو محنت اورلگن کا مظاہرہ کرتے ہیں اس سے دوسروں کو بھی ایسے ہی کارنامے سرانجام دینے کی شہ ملتی ہے جو معاشرے میں مثبت سرگرمیوں کو فروغ دینے کے ایک ایسے سلسلے کو جنم دیتی ہے جس کے دوررس اثرات سامنے آجاتے ہیں۔