پاکستان کے عوام، حکومت پاکستان اور دنیا بھر میں بسنے والے کشمیری ہر سال 27 اکتوبرکا دن یوم سیاہ کے طور پر مناتے ہیں۔27اکتوبر 1947 کو بھارت نے اپنی فوجیں کشمیر میں اتارکر غیر قانونی قبضہ کرلیا جو تا حال قائم ہے۔ اس دن کے بعد سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ایسا دور شروع ہوا کہ کشمیریوں کو ان کے بنیادی انسانی حقوق سے ہی یکسر محروم کردیا گیا۔ بھارتی افواج کے ظالمانہ ہتھکنڈوں اور ظلم و جبر کے باوجود کشمیری اپنے حق خود ارادیت کے مطالبہ سے ایک انچ پیچھے نہیں ہٹے، بھارت نوشتہ دیوار پڑھ لے اور تنازعہ کشمیر کے پرامن حل کیلئے اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل کرے۔74 سال پہلے اس دن بھارت نے مقبوضہ جموں و کشمیر کے بے گناہ عوام کو دبانے، خوفزدہ کرنے، انہیں محکوم بنانے اور مقبوضہ کشمیر پر قبضہ کیلئے اپنی افواج سرینگر میں اتاری تھیں۔ بھارت کا ظلم و جبر آج بھی جاری ہے، عالمی برادری سے وعدوں اور جموں و کشمیر سے متعلق اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی کئی قراردادوں کے باوجود بھارتی حکومت مقبوضہ کشمیر میں دہشت کی فضاقائم کر رکھی ہے اور بھارت اپنے وعدے پورے کرنے سے انکاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ 8 جولائی کو نوجوان کشمیری رہنما برہان وانی کی ماورائے عدالت شہادت کے بعد بھارتی قابض افواج نے ظالمانہ ہتھکنڈے تیز کر دیئے ہیں۔ انہوں نے تمام انسانی اقدار کو پس پشت ڈال دیا ہے اور نہتے اور بے یار و مددگار کشمیریوں کے خلاف ریاستی دہشت گردی کی انتہاکر دی ہے۔جموں و کشمیر کے عوام گزشتہ 70 سالوں سے بھارتی قبضے کے خلاف مزاحمت کر رہے ہیں، آزادی کی جدوجہد میں شامل ہیں، انہیں بدترین قسم کی بھارتی ریاستی دہشت گردی کا سامنا ہے۔ انہوں نے بڑی جرات کے ساتھ بھارتی محکومی اور مظالم کا مقابلہ کیا ہے اور نئی دہلی انہیں ڈرانے دھمکانے میں ناکام رہی ہے۔ 27 اکتوبر 1947 کو جموں و کشمیر میں بھارتی فوج کے اترنے سے عوام کے دکھوں کا آغاز ہوا۔ اس لیے دنیا بھر میں جہاں بھی کشمیری رہتے ہیں اس دن کو یوم سیاہ کے طور پر منایا جاتا ہے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ ہندوستان نے 1947 میں آزادی کے قانون اور تقسیم کے منصوبے کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا کہ انڈین برٹش کالونی دو خودمختار ریاستوں میں تقسیم ہو جائے گی، اس نے اپنی فوجیں جموں و کشمیر میں بھیجیں۔ بھارت نے حیدرآباد، جوناگڑھ اور جموں و کشمیر کی ریاستوں پر زبردستی قبضہ کیا، پہلی دو ہندو اکثریتی ریاستیں ہیں جن میں مسلم حکمران ہیں جبکہ وادی میں اکثریت مسلم آبادی کی تھی لیکن اسے ہندو حکمران چلا رہے تھے۔بدقسمتی سے، برطانوی بیرسٹر سیرل ریڈکلف کی سربراہی میں باؤنڈری کمیشن نے بھی وادی کشمیر پر قبضہ کرنے میں بھارت کی مدد کی۔ اس نے ایک مسلم اکثریتی علاقہ گورداس پور کو تقسیم کیا اور اسے بھارت کے حوالے کر دیا، اس طرح ایک حد بندی کی گئی جس سے جموں و کشمیر کا زمینی راستہ بن گیا۔ بھارتی افواج کی آمد کے بعد، مسلمانوں کا قتل عام شروع ہوا تاکہ وادی کی آبادی کی حیثیت کو تبدیل کیا جاسکے۔کشمیری عوام نے کبھی بھی غیر قانونی قبضے کو قبول نہیں کیا اور 1947 سے ہی آزادی کی جدوجہد شروع کی۔ دریں اثنا ہندوستانی حکومت نے یکم جنوری 1948 کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے رجوع کیا، کشمیر کے تنازع کو حل کرنے کے لیے اس کی مدد طلب کی۔سلامتی کونسل نے جنگ بندی، جنگ بندی لائن کی حد بندی، ریاست کو غیر مسلح کرنے اور اقوام متحدہ کی نگرانی میں ایک آزاد اور غیر جانبدار رائے شماری کی منظوری دینے والی دو قراردادیں منظور کیں۔ یہ قراردادیں 13 اگست 1948 اور 5 جنوری 1949 کو منظور کی گئیں جنہیں پاکستان اور بھارت دونوں نے قبول کیا۔ ان قراردادوں کا صرف ایک مرحلہ (جنگ بندی اور جنگ بندی لائن کی حد بندی) نافذ کیا گیا جبکہ مقبوضہ علاقے کو غیر مسلح کرنا اور رائے شماری کا انعقاد ابھی تک غیر عملی ہے۔جنوری 1989 سے 2021 تک بھارتی فوجیوں نے تقریبا 2لاکھ کشمیریوں کو شہید کیا، ہزاروں خواتین بیوہ ہوگئیں، بچے یتیم ہوئے جبکہ ہزاروں کشمیری خواتین کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بھی بنایا۔ کشمیریوں کو ڈرانے دھمکانے کے لیے خواتین کی عصمت دری کو جنگ کے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ دس ہزارسے زائد بے گناہ نوجوانوں کو لاپتہ کیا گیا جن کے ٹھکانے کا بھی کوئی پتہ نہیں چل سکا۔ جبکہ ان میں سے بہت سے لوگوں کاجعلی مقابلوں میں بھارتی فوجیوں کے مارے جانے کے بعد علاقے میں دریافت ہونے والی ہزاروں بے نشان قبروں میں دفن ہونے کا بھی خدشہ ہے۔سینکڑوں نوجوان اپنی ایک یا دونوں آنکھیں گولی کے زخموں سے کھو چکے ہیں جبکہ ہزار سے زائد اپنی بینائی سے محروم ہونے کے دہانے پر ہیں۔ حریت رہنماؤں سمیت سینکڑوں افراد کو سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا ہے۔ جس میں گزشتہ ماہ یکم ستمبر2021 بطلِ حریت، مقبوضہ کشمیر میں چلتے پِھرتے پاکستان، سید علی گیلانی نے اپنی زندگی کی آخری سانس لی اورآزادی کی جس جدوجہد کے لئے زندہ رہے، اپنے جیون کے92 برس گزار کر اسی کے نام کے ساتھ آنکھیں موندلیں۔5 اگست 2019 کے بعد سے ہندوستان نے تمام موجودہ معاہدوں کی پابندیوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بھارتی مقبوضہ جموں و کشمیر کو دنیا کے سب سے بڑے انسانی پنجرے میں تبدیل کردیا۔ بڑے پیمانے پر نسل کشی اور آبادی میں تبدیلی ہونا شروع ہوگئی ہے۔27اکتوبر تاریخ انسانی کا وہ سیاہ دن ہے جب بھارت نے ریاست جموں کشمیر پر قبضہ وحملہ کے لئے فوجیں داخل کی تھیں۔ تقسیم ہند اور ریاستوں کے الحاق کا جوفارمولہ واضع کیا گیا تھا اس کی رو سے ریاست جموں کشمیر کا الحاق صرف پاکستان ہی سے ہو سکتا تھا۔ اس لئے کہ ریاست کی اکثریتی آبادی مسلمان تھی۔ ریاست کے باشندوں کے جغرافیائی و لسانی رشتے ناطے بھی پاکستان سے ملتے تھے۔ سب سے بڑی بات یہ تھی کہ ریاستی مسلمانوں کی نمائندہ جماعت آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس ریاست کے پاکستان کے ساتھ الحاق کا مطالبہ و اعادہ کر چکی تھی۔ انگریز اور ہندو مسلمانوں کے دشمن اور پاکستان کے معاملے میں پہلے ہی بدنیت تھے لہٰذا انہوں نے پاکستان کو بے دست وپا کرنے اور آبی طور پرکمزور کرنے کے لئے ریاست جموں کشمیر پر حملے اور قبضے کا فیصلہ کر لیا۔ اس مقصد کی خاطر مہاراجہ ہری سنگھ کی طرف سے ریاست کے بھارت کے ساتھ الحاق کا ایک جھوٹا معاہدہ تراشا گیا۔ بعد ازاں اس معاہدے کو جواز بناتے ہوئے 27 اکتوبر1947 کو رات کی تاریکی میں بھارت نے اپنی فوج ریاست میں داخل کر دی۔ واضح رہے کہ اس وقت بھارتی فوج کو انگریز وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن، انگریز فوجی افسروں کی مدد و معاونت بھی حاصل تھی۔ مزید ستم یہ تھا کہ اس وقت کا مہاراجہ ہری سنگھ بھی مسلمانوں کا دشمن تھا۔ ہری سنگھ اس ڈوگرا خاندان سے تعلق رکھتا تھا جوگزشتہ سوسال سے مسلمانوں پر ظلم و جبر کرتا چلا آ رہا تھا۔ اس کے بعد ایک وقت ایسا بھی آیا جب ڈوگرا خاندان کی مداخلت معاشی معاملات سے بڑھتے بڑھتے مذہبی معاملات تک جاپہنچی کشمیری مسلمانوں کو پاکستان کے ساتھ محبت کی سزا دینے اور تکمیل پاکستان کی راہ میں روڑے اٹکانے کے لئے 27 اکتوبر1947 کو اپنی فوجیں 85 فیصد مسلم آبادی والی ریاست جموں کشمیرمیں داخل کرکے بھارت نے شب خون مارا۔ مہاراجہ ہری سنگھ نے خودگولی چلاکرکشمیری مسلمانوں کے قتلِ عام کا آغاز کیا۔ اہل کشمیرنے جرات وبہادری کا راستہ اختیارکیا۔ جیسے ہی بھارت نے اپنی فوجیں ریاست جموں کشمیرمیں داخل کیں کشمیری مسلمان میدان جہاد میں کود پڑے اور تمام ترظلم کے باوجود نہتے کشمیریوں نے ہزاروں بھارتی فوجیوں، ٹینکوں، طیاروں، توپوں اور رائل انڈین ائر فورس کو شکستِ فاش سے دوچار کیا اور ایک بڑا علاقہ واگزار کروا لیا۔اب مقبوضہ جموں کشمیر کے مسلمان بھارت کے زیر تسلط خطہ کی آزادی کے لئے برسرپیکارہیں۔ بھارت کے زیرِانتظام کشمیر میں ہلاکتوں کے خلاف آج پاکستان بھر میں یوم سیاہ منایا جارہا ہے‘حکومت پاکستان کی اپیل پر منائے جانے والے اس دن کے موقع پر سرکاری ملازمین نے اپنے بازوں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر اپنے فرائض انجام دئیے۔1989 میں بھارتی کشمیر میں مسلح شورش شروع ہونے کے بعد آزادی پسند جماعتوں کی اپیل پر ہر سال 27 اکتوبر کو یومِ سیاہ اور یومِ احتجاج کے طور پر منایا جاتا ہے۔