معمول کے واقعات کو منفرد انداز میں پیش کرکے ہر پڑھنے والے کو یہ احساس دلانا کہ جیسے یہ اس کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کی تصویر ہے، کوئی آسان کام نہیں،کنہیا لال کپور کو اس فن پر پورا عبور حاصل تھا، زیر نظر ان کی مزاحیہ تحریر اس حقیقت کا بین ثبوت ہے، لکھتے ہیں ”ہمارے دل کے دورے سے متعلق تبصرے میں کسی نے کہاننانوے کے پھیر میں پڑ گیا تھا‘ دن رات زیادہ سے زیادہ روپیہ کمانے کیلئے دوڑ دھوپ کیا کرتاتھا۔ کسی اور نے کہا پرلے درجے کا کنجوس تھا‘ گوشت کی بجائے مونگ کی دال کھایا کرتا تھا‘ کوئی بولا صحت کے پیچھے لٹھ لے کر پھرتا تھا‘دن میں دس بارچائے پیتا تھا اور کوئی اپنے دل کی بھڑاس نکالتے ہوئے کہنے لگا”قرض لیکر کبھی واپس نہیں کرتا تھا۔ دل کا دورہ نہ پڑتا اورکیا ہوتا؛ہسپتال میں ایک ماہ رہنے کے بعد جب چھٹی ملی”ڈاکٹرنے اتنی ہدایات دیں اوراس قدر پابندیاں لگا دیں کہ ہم سوچنے لگے بچ تو گئے ہیں لیکن اب جی کر کیاکریں گے ”سگریٹ مت پیجئے‘ ابلی ہوئی سبزیاں کھائیے‘ نہایت آہستہ چلا کیجئے‘ لکھنا پڑھنا چھوڑ دیجیے‘ اپنے بلڈ پریشر کا خیال رکھا کیجئے‘ ہر دوماہ کے بعد ای سی جی کرانے کیلئے ہسپتال آئیے۔کچھ دن اور گھر پر آرام کرنے کے بعد ہمیں چلنے پھرنے کی اجازت دے دی گئی‘ اب جب ہم سیر کو جاتے‘ لوگ کرید کرید کر پوچھتے‘ کیا سینے میں درد تو نہیں ہوتا؟ چلتے وقت سانس تو نہیں پھول جاتا؟ نبض ڈوبتی ہوئی تو محسوس نہیں ہوتی؟ چکر تو نہیں آتا؟ آنکھوں کے آگے اندھیرا تو نہیں چھا جاتا؟ ہم جب ان تمام سوالوں کا جواب نفی میں دیتے‘ انہیں بڑی مایوسی ہوتی‘ ایک برس کے بعد ہمارے احباب کوشک ہونے لگا ہمیں دل کا نہیں کسی اور چیز کا دورہ پڑاتھا؛اب جب ان سے ملاقات ہوتی وہ سوال کرتے کیا آپ کو سوفیصد یقین ہے آپ کو دل کا ہی دورہ پڑا تھا؟ کیا وہ ڈاکٹر جنہوں نے آپ کا علاج کیا تھاامراض دل کے ماہر تھے یا معمولی ڈاکٹر تھے؟ اگر وہ دل کا دورہ تھا۔ اس کے بعد آپ کو پھر کبھی کیوں نہیں پڑا؟ ہمیں ان کے سوالات سن کر کسی شاعر کا یہ شعر بے ساختہ یاد آجاتا‘وہ ارماں جونہ نکلے دشمنی سے....نکلے جا رہے ہیں دوستی سے...آج کل جب کبھی ہماری طبیعت خراب ہو جاتی ہے ہمارے کچھ دوست بھاگم بھاگ ہمارے یہاں پہنچتے ہیں اور مصنوعی ہمدردی جتاتے ہوئے کہتے ہیں خیر تو ہے کہیں دل کا دوسرا دورہ تونہیں پڑگیا؟ جب ہم انہیں مطلع کرتے ہیں جی نہیں معمولی زکام ہے‘وہ پھیکی ہنسی ہنستے ہوئے مشورہ دیتے ہیں‘ پھر بھی آپ کو محتاط رہنا چاہئے کئی بار زکام بھی دل کے دوسرے دورے کا باعث بن جاتا ہے پچھلے دنوں ایسے کئی کیس ہوئے ہیں۔ سنا ہے ہمارے گھر سے واپس جاتے وقت وہ آپس میں اس قسم کی باتیں کرتے ہیں ”ہم نے تو سمجھا تھا دل کا دوسرا دورہ ہو گا یہ تو محض زکام نکلا“ اجی بکرے کی ماں کب تک خیرمنائے گی‘ آج نہیں تو کل انہیں دل کا دوسرا دورہ ضرورپڑے گا”دوسرا دورہ عموماً جان لیوا ثابت ہوتاہے“...ہوتا تو ہے اگر آدمی ان کی طرح ڈھیٹ نہ ہو“ اس منتخب اقتباس کا حاصل مطالعہ بات سے بات نکالنے کافن ہے اور ارد گرد وقوع پذیر ہونے والے معمول کی باتوں کومشاہدے میں لا کر ان کو ایک لڑی میں پرونا ہے۔
اشتہار
مقبول خبریں
معاشی تعلقات کادور
مہمان کالم
مہمان کالم
یوم سیاہ کشمیر
مہمان کالم
مہمان کالم
پروفیسر ڈاکٹر ناصر الدین اعظم خان
مہمان کالم
مہمان کالم
معاشی ترقی کی نوید
مہمان کالم
مہمان کالم