مستنصر حسین تارڑ کی تحاریر کا خاصہ ان کا منفرد اسلوب ہے جس کا احساس پڑھنے والے کو فوراً ہوجاتا ہے، ایک مقام پر وہ رقم طراز ہیں ”کچھ برس پیشتر مجھے آرلینڈو میں عیدالفطر منانے کا اتفاق ہوا تھا‘ عینی کی زبردست منصوبہ بندی اور دھونس کی وجہ سے ہمارا پورا خاندان عید منانے کیلئے آرلینڈو پہنچ گیا تھا‘ سلجوق ان دنوں یو این او میں تھا‘ وہ اپنے بال بچوں سمیت نیو یارک سے آ گیا‘ویت نام سے سمیر آدھی دنیا کا سفر کرکے اپنے خاندان کے ساتھ وارد ہو گیا‘ہم دونوں میاں بیوی پہلے سے منتظر تھے‘ یوں ہمارے لئے یہ زندگی کی خوبصورت ترین عید ثابت ہوئی کہ ہم بہت برسوں سے یوں اکٹھے نہ ہوئے تھے۔ عینی نے ڈریس کوڈ بھی متعین کردی تھی‘سفید شلوار قمیض کیساتھ سیاہ ویسٹ کوٹ۔ آرلینڈو کے ایک کانفرنس ہال میں عید کی نماز کا اہتمام ہوا جس میں ہزاروں افراد نے شرکت کی‘ اس بار جب عیدالضحیٰ قریب آ رہی تھی تو بہت خواہش تھی کہ آس پاس سے کہیں بکروں اور مویشیوں کی سریلی آوازیں سنائی دے جائیں‘ یہ نہ تھی ہماری قسمت‘یہاں کے بیشتر پاکستانی قربانی کی رقم ایدھی فاؤنڈیشن یا شوکت خانم فنڈ میں جمع کروا دیتے ہیں‘کچھ لوگ توقف کر کے شہر سے باہرجا کر ضرورت مند پاکستانیوں کو بلا کر قرض کی رقم ادا کرتے ہیں‘ گوشت ساتھ لیکر دوستوں اور ہمسایوں میں تقسیم کر دیتے ہیں‘عیدالضحیٰ کی صبح جب سیر کو نکلے توحسب معمول ہرن نظر آ جاتے معاً یہ ذہن میں آتا کہ یہاں ہرن اتنی کثرت سے پائے جاتے ہیں تو ان کی کثرت کو کم کرنے کے لئے کوئی ہرن قابو کر لئے جاتے لیکن امریکی جنگلی حیات کو انسانی حیات سے زیادہ اہم مانتے ہیں‘ میں نے عینی کے ساتھ بات کی کہ آئندہ کیلئے میرے یہ ارادے ہیں تو وہ سخت خفا ہو گئی کہ ابو اگر کسی واقف کار نے دیکھ لیا تو وہ کیا کہے گا کہ عینی کے ابو ایک بکرے کو غبارے باندھ کر گالف کورس پر لئے پھرتے ہیں‘ ویسے میرے ہاں تمام قانونی جواز موجود تھے یعنی آپ پالتو جانوروں کے طور پر گھر میں سفید چوہے‘ بلیاں‘ کتے‘ سانپ اور نیولے وغیرہ رکھ سکتے ہیں تو بے چارے بکروں نے کیا قصور کیا ہے اور صبح سویرے لوگ اگر اپنے کتوں کو سیر کروا سکتے ہیں تو بکروں کو بھی تو یہ حق حاصل ہونا چاہئے‘اس بار عید کی نماز کیلئے ایک کمیونٹی ہال کی عمارت کرائے پر حاصل کی گئی‘ ہم سب بھی خوب بن ٹھن کر کشاں کشاں ’عید گاہ‘ پہنچے‘وہاں گویا انسانوں کی ایک کاک ٹیل کے نظارے تھے۔ رنگ اور نسل کی کوئی تخصیص نہ تھی۔ خاص طور پر چھوٹے بچے بہت بن سنور کے آئے تھے اور سچی بات ہے عید کی رونقیں انہی کے دم سے تھیں۔ مثلاً ایک بچی نے تلے دار غرارہ پہنا ہوا ہے‘ماتھے پر جھومر جھولتا ہے اور ہاتھوں میں مہندی رنگ لاتی ہے‘ میں نے سوچا یہ بچے ابھی تو خالص پاکستانی ہیں‘جوں جوں بڑے ہوتے جائیں گے امریکی ہوتے جائیں گے‘ یہاں صرف مرد نہیں تمام گھریلو عورتیں بھی نماز پڑھنے کیلئے جاتی ہیں‘چنانچہ ہال کا نصف حصہ خواتین کیلئے مخصوص تھا‘ گزشتہ دو برس سے حسب توقع میرے گھٹنوں نے مجھے کورا جواب دیدیا کہ حضور بہت ہو چکی اب ہم ٹیکے نہیں جا سکتے۔ کوہ نوردی کے دوران احساس ہوا کہ گھاس پر بمشکل بیٹھ تو گئے لیکن بمشکل اٹھ نہ سکے۔ کارواں چل دیا اور ہم بیٹھے ہی رہ گئے۔ ظاہر ہے نماز کی ادائیگی کیلئے بھی ایک عدد کرسی کی حاجت ہونے لگی‘ بلال نے مجھے فرش پر براجمان نمازیوں کے پہلو میں انکی کرسیوں میں سے ایک پر بٹھا دیا جو مجھ ایسے نیم معذور بابا جات کیلئے مہیا کی گئی تھیں‘یہاں جتنے بھی افراد براجمان تھے انکے عمر رسیدہ چہرے دشت تنہائی میں گم تھے‘وہ بقیہ لوگوں سے کٹے ہوئے اپنے ہی خیالوں میں کھوئے ہوئے تھے۔ یہاں تک کہ ایک دوسرے کیساتھ بھی کم ہی گفتگو کرتے تھے‘ یہ وہ تنہا لوگ تھے جن کی آنکھوں میں کوئی سپنا نہ تھا۔ کوئی خواہش کوئی تمنا نہ تھی کہ وہ بھی میری طرح فنا کے کناروں پر کھڑے تھے‘ ان میں زیادہ تر ایسے بوڑھے تھے جن کے بچے امریکہ میں آئے اور یہیں کے ہو کر رہ گئے‘ ان بچوں نے محبت اور مجبوری کے تحت انہیں بھی امریکہ’امپورٹ‘ کر لیا وہ اپنے ہم عمر لوگوں کی رونقوں سے بچھڑے۔ وطن کی مٹی سے جدا ہوئے اپنی ثقافت اور روایات سے الگ ہوئے‘یہاں آئے اور یہاں تنہائی کی سیاہ چڑیلیں انہیں دبوچنے کیلئے منتظر تھیں‘ میں سمجھتا ہوں کہ عمر رسیدہ افراد کو پاکستان سے یہاں لے آنا بہت بڑا ظلم ہے‘ ان قدیم شجروں کو اکھاڑ کر کسی اور سرزمین میں نہیں لگایا جا سکتا وہ اپنی جڑیں وہیں چھوڑ آتے ہیں‘وہ یہاں نہیں پنپ سکتے‘ نیو یارک کے ایک سٹور میں ایک پاکستانی اماں جان‘ لوگوں نے جو ملبوسات پہن کر ترک کر دیئے تھے انہیں تہہ کر رہی تھیں‘ کہنے لگی کہ بہو نے کہا‘ ماں جی سارا دن بیکار بیٹھی رہتی ہو‘ بور ہو جاتی ہو کوئی نوکری کر لو اب صبح سے شام تک لوگوں کے اتارے ہوئے کپڑے کھڑی رہ کر تہہ کرتی ہوں‘ نہ مجھے زبان آتی ہے کہ بول چال کروں۔ سال ہو گیا ہے اپنی زبان میں کسی سے بات کئے ہوئے آج آپ نے مہربانی کی ہے۔ میرے بیٹے سے کہیں مجھے لاہور بھجوا دے میں اپنے مکان میں رہنا چاہتی ہوں اور مرنا چاہتی ہوں‘ ازاں بعد اماں جان نے بھوں بھوں کر کے رونا شروع کر دیا‘عید کی نماز کے بعد امام صاحب سے گلے ملے اور پھر کوئی ایک گھنٹے کی مسافت پر واقع بلال کے دوست نیورولوجسٹ ڈاکٹر شاہد کے ہاں ناشتے پر چلے گئے‘انکے ہاں جتنے بھی مہمان تھے بیشتر ڈاکٹر تھے اور دماغی امراض کے ماہر تھے‘ جانے کیوں وہ سب مجھے گھور گھور کے دیکھتے رہے۔ شاید انہیں میری آنکھوں میں کچھ فتور سا نظر آتا تھا‘ ڈاکٹر شاہد نہایت ہی ملنسار تھے اور انہوں نے اپنے وسیع مکان کے پچھواڑے میں پھیلی ہوئی نیلی جھیل میں مجھے مچھلیاں پکڑنے کیلئے مدعو کیا‘میں نے پوچھا کہ ڈاکٹر صاحب جھیل میں مگرمچھ ہیں؟کہنے لگے ہوئے تو انہیں بھی پکڑ لیں گے‘ شام کو ڈاکٹر بلال کے ہاں دعوت تھی“بلال اور انکی اہلیہ نورین دونوں خوش امور اور خوش نظر ہیں‘ نورین نے اپنی والدہ کی خواہش کی تعمیل میں میرے لئے ایک خصوصی مٹن کڑھائی تیار کی جس میں محبت کے ذائقے تھے۔“اس تحریر کا حاصل مطالعہ دیس اور پردیس کافرق ہے جو انہی لوگوں پر واضح ہوتا ہے جو پردیس جاکر اپنے دیس سے دور ہوجاتے ہیں۔