ویت نام کا سفر  ّ(سید ابو یاسر)

۔مستنصر حسین تارڑ اپنے  ایک سفر نامے میں مختلف ممالک میں رائج روایات کا منفرد انداز میں ذکر کرتے ہیں،ایک مقام پر لکھتے ہیں کہ ”میں نے اپنے سفرنامے’نیو یارک کے سورنگ‘ میں اس شہر کی ایک پہچان درج کی ہے اور وہ ہے ایک جاگنگ کرتی لڑکی جس کی پونی ٹیل اسکی گردن پر ایک گلہری کی مانند اچھلتی چلی جاتی ہے..ٹائمز سکوائر میں‘مین ہٹن میں‘ واشنگٹن سکوائرمیں ہرجگہ دکھائی دیتی ہے‘تحقیق پر معلوم ہوا کہ ان میں سے بیشتر آفس گرلز یا سیلز گرلز ہیں‘ جب بھی چائے یا لنچ کا وقفہ ہوتا ہے وہ فوری طورپرجاگنگ کیلئے نکل جاتی ہیں‘ چاہے یہ لنچ بریک صرف نصف گھنٹے کی ہو‘ پوری دنیا جاگنگ کرتی ہے یہاں تک پاکستان میں بھی جوان کم اور بابا لوگ زیادہ پارکوں میں جاگنگ کرتے نظرآجاتے ہیں‘دنیا میں شاید صرف ایک ملک ہے جہاں کوئی بھی جاگنگ نہیں کرتا‘اور وہ ہے ویت نام... وہ یوں پاگلوں کی طرح بھاگتے جانے کو صحت کیلئے مضر سمجھتے ہیں اور نہ ہی وہ ہماری طرح ڈنڈ بیٹھکیں لگا کر صحت بنانے پر یقین رکھتے ہیں بلکہ وہ سمجھتے ہیں اس نوعیت کی احمقانہ اٹھک بیٹھک سے ہڈیاں کمزور ہو جاتی ہیں اگر ویت نامی جاگنگ نہیں کرتے‘ ڈنڈ بیٹھکیں بھی نہیں نکالتے تو پھر وہ اتنے صحت مند اور چست بدن کیسے ہیں‘ وہ صرف حرکت میں برکت سمجھتے ہیں ایک ہی مقام پر کھڑے اپنے بدن کو مختلف زاویوں میں لچکاتے‘ جھکتے اور دوہرے ہوتے ہیں‘کبھی تلوارسونت لینے کا اندازاختیار کرتے ہیں توکبھی طلوع ہوتے سورج کے سامنے کورنش بجاتے ہیں‘ ورزش کے یہ انداز اسکی قدیم ثقافت کا ایک حصہ ہیں۔انکے نزدیک ورزش کا مطلب ہے حرکت... ایک سویر جب ہم ہنوئی کی مرکزی کچھوے والی جھیل کے کناروں پر گئے تو وہاں جیسے پورا ہنوئی امڈ امڈ آیا تھا‘ ہزاروں لوگ حرکت میں برکت والی ورزشیں کررہے تھے اور خواتین موسیقی کی لے پر پریڈ کر رہی تھیں‘ میمونہ میری فی الحال اکلوتی بیگم بھی ایک مہم جو روح ہے... وہ بھی ان خواتین میں شامل ہوگئی اور پریڈ کرنے لگی‘اسکی شمولیت پر ویت نامی خواتین نے نعرہ ہائے تحسین بلند کئے اور پوچھا انڈین؟مونا نے ناک چڑھا کر کہا پاکستانی‘ تو ان خواتین نے موسیقی کی لے کیساتھ پاکستانی پاکستانی شامل کر کے مجھے اور مونا کو خوش کردیا...یہ ہنوئی کے دل میں واقع کچھوے والی جھیل ہر ویت نامی کا دل ہے... کہا جاتا ہے کہ ایک ویت نامی شہنشاہ نے ان گنت دشمنوں کو اپنی جادوئی تلوار سے زیر کیا اور مکمل فتح کے بعد اس جھیل کے کناروں پر آکر اپنی تلوار پانیوں میں پھینک دی اور وہ تلوار ایک بہت بڑے کچھوے نے اپنی پشت پر سنبھال لی اور جھیل میں گم ہوگیا۔ایک روز ہم ہنوئی کی سب سے قدیم درسگاہ میں گئے یہ ”ٹمپل آف لٹریچر“ کہلاتاہے ایک ہزار برس سے قائم یہ ایک قدیم علوم کی یونیورسٹی ہے... کیا ہمارے ہاں کسی بھی بہت پرانی درسگاہ کے آثار ہیں؟ مجھے اس لئے بھی  یہاں کے دورے نے طمانیت بخشی کہ یہ شاید دنیا بھر میں واحد ادب کا مندر ہے یہ مندر بہت سجا ہوا ہے بونسائی درختوں سے اور یقین کریں آم کے گھنے شجروں سے جن کی ڈالیوں پر سینکڑوں آم بندروں کی مانند جھولتے ہیں...“ اس اقتباس کا حاصل مطالعہ مصنف کا عمیق مشاہدہ ہے جس کے ذریعے وہ معمولی معمولی جزیات کو بھی تفصیل سے بیان کرنے پر عبور رکھتا ہے۔اور عام نظر آنے والے واقعات کو اس طرح بیان کر دیتے ہیں کہ پڑھنے والے کے تجسس اور شوق میں اضافہ ہو جاتا ہے۔