زمین کیلئے آسمان کا بڑا تحفہ  (سید ابو یاسر)

یوں تو سارے خونی رشتے اپنے اندر گہرائی رکھتے ہیں تاہم ماں اور اولاد کو جو رشتہ ہے اس کی مثال شاید ہی کہیں مل سکے۔اس حوالے سے اپنی کتاب ”ادب کے اطراف میں“ میں ناصر علی سیّد لکھتے ہیں کہ”سسکیوں کے ساتھ رو رہا تھا روئے چلا جا رہا تھا میرے پاس دلا سہ دینے کے جتنے بھی لفظ تھے وہ مجھے خود کھو کھلے سے لگ رہے تھے میں اس کو کیا کہتا یہ صبح ساڑھے چھ بجے کی بات ہے جب اس نے مجھے فون پر روتے ہوئے اپنی والدہ کے انتقال کی خبر دی تھی وہ بچوں کی طرح بلک بلک کررورہا تھا۔انسانی رشتوں میں ماں کا رشتہ سب سے زیادہ قابل احترام اور دل کی دھڑکنوں میں رچا بسا رشتہ ہوتا ہے شاید اسے اسی لئے آسمان کی طرف سے زمین کو عطا کیا جانے والا سب سے بڑا تحفہ کہا جاتا ہے۔ ماں سے بچوں کی عقیدت‘محبت اور احترام کی ان گنت داستانیں سننے اور دیکھنے میں آتی ہیں کچھ بدقسمت بچوں کے برعکس رویے بھی آئے دن نظر آجاتے ہیں۔خصوصاًجب مائیں ان کے لئے بہویں لے کر آجاتی ہیں تو اسی دن سے ماں کی اہمیت کم ہوناشروع ہوجاتی ہے اور سراپا دعا مائیں پھر اپنے لاڈلے بیٹے کی شکل دیکھنے کو بھی ترس جاتی ہیں۔ معلوم نہیں کہ کٹھور دل بیٹے اتنی بڑی محبت سے کس طرح منہ موڑلیتے ہیں۔کہتے ہیں کہ جب بچہ اپنی تو تلی زبان سے الٹے سیدھے سوال کرنا شروع کرتا ہے تو ماں کے لئے یہ سب سے زیادہ خوشی اور سرشاری کا موسم ہوتا ہے انہی دنوں جب وہ چیزوں کو جاننے سمجھنے کی کوشش کرتا ہے تو ماں کا چہرہ خوشی سے تمتمارہا ہوتا ہے۔ کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ وہ پوچھتا ہے کہ ”ماں یہ کیاہے ؟ماں کہتی ہے بیٹے یہ کواہے وہ پھر پوچھتا ہے‘ماں یہ کیا ہے؟ماں پہلے سے
 زیادہ پیار اور دُلار سے بتاتی ہے ”چندا یہ کو اہے وہ پھر کچھ دیر بعد پوچھتا ہے‘ماں ماں یہ کیا ماں اس کا ماتھا چوم کر خود سے لپٹا کر اسے کہتی ہے کہ”ماں صدقے جائے یہ کواہے“بیٹا ساٹھ بارپوچھتا ہے یہ کیا ہے اور ماں ہر بار صدقے قربان اورواری جاتی ہوئے اسے بتاتی ہے یہ کواہے کیونکہ اسے معلوم ہے کہ یہ زمانہ اس کے جگر گوشے کے سیکھنے کا ہے لیکن......وہی ماں جب بوڑھی ہو جاتی ہے جب اسے دھند لا نظر آنے لگتا ہے‘جب وہ
 اپنی اولاد سے بات کرنے کے بہانے تلاشتی ہے اسے اپنی طرف متوجہ کرنے کی ترکیبیں سوچتی ہے تو ایسے میں اگر وہ اسی بیٹے سے یہ پوچھ لے کہ ”بیٹے یہ دیوار پر کیا ہے؟تو ایک نا گواری اور بیزاری کے عالم میں اسے جواب ملتا ہے ”دیوار پر کیا ہے‘کواہے نا۔اب دیوار پر بھینس تو نہیں چڑھ سکتی نا“اور وہ بے چاری سہم کر خاموش ہو جاتی ہے وہ اسے یہ بھی نہیں کہہ سکتی ہے کہ میرے لعل اس کی پہچان تو میں نے ہی تمہیں ساٹھ مرتبہ کروائی تھی ایسے بے درد زمانے میں جس شخص نے روتے ہوئے مجھے اپنی والدہ کے انتقال کی خبر دی اور جس کی لال سرخ آنکھیں اور بے ترتیب سانسیں اور ہر ایک سے گلے مل کر چیختے ہوئے یہ کہنا جگر کو چھلنی کررہا تھا کہ ”میں اکیلا رہ گیا“محبت کرنے والی مائیں کیوں مرجاتی ہیں رہ رہ کریہ خیال آتا ہے وہ عجیب شخص ہے وہ ہمیشہ مجھ سے اپنی ماں کی باتیں کرتا ہے۔ جب بھی ہم محفل میں ہوتے ہیں ایک نہ ختم ہونے والی شو خ و شنگ گفتگو سے ہم ایک دوسرے کو شرابور کرتے رہتے ہیں لیکن جو نہی محفل ختم ہوتی ہے وہ میرے ساتھ مجھے میرے گھر تک چھوڑنے آتا ہے وہ ماں کی ہی باتیں کرتا ہے‘ آج میں نے اسے یہ کہا آج اس کے لئے میں بازار سے یہ لے گیا آج اسے دھوپ پر بہت دیر تک بٹھائے رکھا۔آج اس کے بال سنوارے۔آج کپڑے بدلنے میں مدد دی اور یہ سب بتاتے ہوئے وہ ہمیشہ مجھے بھری محفل کے برعکس ایک بہت ہی چھوٹا سا معصوم سا بچہ لگتا ہے ایک ایسا بچہ جس نے پہلی بار سائیکل چلائی ہو اور تو ازن کی وہ خوشی اس کے انگ انگ سے ٹپک رہی ہو‘آج اس کی وہی خوشی‘وہی مرکزدعا وہی احساس تفاخر باقی نہ رہا۔ میرے گلے مل کر روتے ہوئے اس نے مجھے سسکیوں میں یہی کہا کہ ”اب میں کس کی باتیں کروں گا مجھے بہت اکیلا کر گئی“میرا اپنا حلق نمک سے بھر گیا تھا میں اسے کیا تسلی دیتا کیا دلاسادیتا اس کی جان اس کی ماں میں تھی اور اس نے ساری عمر ماں کے ہی چرنوں میں گزار دی تھی مجھے وہ ہمیشہ ساحر لدھیانوی کی طرح لگا جس نے ماں کو آخری سانسوں تک گلے لگاکے رکھا ساحر کی شادی نہ کرنے کی وجوہات کچھ بھی رہی ہوں مگر اس کی شادی نہ کرنے ماں کی یہی محبت آڑے آئی“۔اس اقتباس کا حاصل مطالعہ ماں جیسی ہستی کی قدر و منزلت کا احساس ہے جو اس وقت ہی صحیح معنوں میں ہوجاتا ہے جب یہ محبت اور خلوص کا نمونہ ساتھ چھوڑ جائے۔