خوشگوار یادیں  (سید ابو یاسر)

ہر گزرا لمحہ اس لئے انمول ہوتا ہے کہ وہ کسی بھی قیمت پر واپس ہاتھ نہیں آسکتا اور اگر یہ لمحات خلوص اور محبت بھرے گزرے ہوں تو پھر ان کو یاد کرنے سے ہی انہیں محسوس کیا جا سکتا ہے۔مشہور مصنف اور دانشور اشفاق احمد بیتے دنوں کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ میری بھانجی کی ایک بیٹی ہے جسے پیارسے ببلی کہتے ہیں وہ ساہیوال میں رہتی ہے میری دوسری بھانجی کی بیٹی ٹینا اور ببلی بڑی گہری سہیلیاں ہیں‘وہ ہم عمر ہیں‘ ٹینا لاہور میں رہتی ہے‘ کبھی کبھی کسی بیاہ شادی کے موقع پر ایسا بھی ہوتا ہے کہ ساہیوال جانا پڑتا ہے اس طرح ٹینا ایک بار جب ساہیوال گئی تو وہ دونوں ایک  ساتھ تھیں کہ آدھی رات کے وقت ٹینا کے رونے کی آواز آئی‘ ببلی کی ماں نے اس سے پوچھا کہ ٹینا کیا بات ہے۔ٹینا روتے ہوئے کہنے لگی کہ ببلی مجھے مونگ پھلی نہیں دیتی‘ اسکی ماں نے کہاکہ ببلی کے پاس تو مونگ پھلی نہیں ہے۔تو وہ روتے ہوئے کہنے لگی کہ خالہ یہ کہتی ہے کہ جب بھی میرے پاس مونگ پھلی ہوئی میں تمہیں نہیں دوں گی‘ وہ رو رہی تھی لیکن ببلی  کا ساتھا بھی نہیں چھوڑ رہی تھی۔ یہ جو خاندانی نظام آہستہ آہستہ ٹوٹ رہے ہیں اور لوگ ایک دوسرے سے بے خبر‘ بے سدھ زندگی گزارنے کو ترجیح دے رہے ہیں اسکی وجہ روپے پیسے کی بہتات ہے‘اس پیسے نے نزدیکی کی بجائے دوریاں پیدا کردی ہیں‘ جب میری آپا زبیدہ حیات تھیں تو جہلم میں انکے پاس ایک ٹی وی سیٹ تھا‘ انکے گھر ایک ادھیڑ عمر شخص پیچ کس پلاس لے کر ان کا ٹی وی ٹھیک کررہا تھا‘وہ روز ٹی وی ٹھیک کرنے آتا‘ صبح صبح آجاتا‘ دوپہر اور شام کا کھانا کھا کر چلا جاتا‘ میں بھی وہاں ٹھہرا ہوا تھا میں دو تین چار دن تک دیکھتا رہا اور میں نے دیکھا کہ ساتویں دن وہ ایک نئی ٹیوب لے کر آیا اس نے کہاکہ آپا جی اس ٹیلیویژن کی ٹیوب خراب ہوگئی ہے اسے یہ لگانے آیا ہوں۔ انہوں نے بھی کہا کہ ٹھیک ہے لگادو‘ اس نے وہ ٹیوب لگا دی تو وہ بلیک اینڈ وائٹ 
ٹیلیویژن چلنے لگا‘ جب وہ چلا گیا تو میں نے آپا زبیدہ سے کہا کہ آپا یہ جو سات دن کوشش میں رہا اور آپ نے اسے کوشش کرنے دی اور اگر اس کی ٹیوب ہی بدلنی تھی تو پہلے دن ہی بدل دی ہوتی‘ وہ کہنے لگی کہ نہیں اگر ایسا ہوجاتا تو پھر بے چارہ اتنے دن کس سے ملتا۔ اس کا بھی اتنے دن دل لگارہا اور ہمارے گھر میں بھی رونق لگی رہی ہے۔
میں جب سکول میں داخل ہوا تو مجھے جس مس کے حوالے کیا گیا وہ بڑی خوش اخلاق تھیں‘ نہایت خوش وضع اور لمبے قدکی شفیق سی استاد تھیں۔ ہماری مائیں ماسیاں بڑی سخت ہوتی تھیں اور اس استاد کی طرف سے ہماری جو شفقت کا لپکا آرہا تھا وہ میرے لئے نیا تجربہ تھا وہ ہمارے کھیلنے کیلئے آسائش کا سامان بھی مہیا کرتی تھیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اس استاد کے لئے دل میں ایک ایسی محبت پیدا ہو گئی جس کا توڑنا بڑا مشکل ہو گیا  اور میرے دل کے کسی نہ کسی کونے کھدرے میں یہ بات ضرور تھی کہ میں ان سے ضرور ملوں گا اور پھر میں اپنا آپ اس شفیق استاد کی خدمت میں پیش کروں گا وقت گزر گیا اور ان سے ملنے کا کوئی موقع ہاتھ نہ آیا وہ جانے کہاں چلی گئیں میں نے پھر میٹرک کیا‘ایف اے‘ بی اے کر چکنے کے بعد یونیورسٹی کا سٹوڈنٹ بنا ولائیت چلا گیا اور وہاں جا کر پڑھاتا بھی رہا‘ لکھنے لکھانے کا کام بھی کرتا رہاجب میں لوٹ کر آیا تو مجھے ایک خاتون ملیں بہت سنجیدہ‘ سلیقہ شعار اور وہ بہت پڑھی لکھی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ میں کچھ لکھتی ہوں اور مجھے آپ کا سٹائل بہت پسند ہے اور میں چاہتی ہوں کہ آپ کی طرز کا لکھنا مجھے بھی آئے‘ میں نے ان سے کہا کہ جی میں نے لکھنا کہیں سے سیکھا تو نہیں یہ آپ کی مہربانی ہے کہ آپ میرے بارے میں ایسا فرما رہی ہیں لیکن وہ محترمہ اصرار کرنے لگیں کہ آپ مجھے ضرور اصلاح دیں اور میری تحریروں پرComments ضرور دیں۔ ان سے جب دوسری ملاقات ہوئی یہ جان کر میرے دل کی کلی کھل اٹھی کہ وہ محترمہ میری وہی استاد تھیں اس اقتباس کا حاصل مطالعہ دوسروں کیلئے جینا اور ان کی زندگی پر مثبت نقوش چھوڑنا ہے،ایسے لوگوں کا ساتھ زندگی بھریا درہتا ہے۔