خطوط اور دعائیں  (سید ابو یاسر)

معروف براڈکاسٹررضا علی عابدی ریڈیو پروگراموں کے حوالے سے خطوط کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ میں نے پروگرام انجمن پورے نو سال نشر کیا‘پروگرام1981ء اپنے خاتمے کے قریب تھاکہ انجمن میں ایک خط نشر ہوا جسکا مضمون یوں تھا”مکرمی، پچھلے سال اکتوبر کی ایک پیر کو میرا ایک خط انجمن میں نشر ہوا تھا جس میں میں نے لکھا تھا کہ میرے گھر میں سبھی خوشیاں موجود ہیں لیکن میرے چمن میں اولاد کا وہ پھول نہیں جو ماں باپ کو راحت بخشتا ہے‘ آپکے سامعین دعا کریں‘ تو آپکو یہ سن کر خوشی ہوگی کہ میرے گھر پر چاندسی بیٹی پیدا ہوئی ہے اور میں نے اپنی بیٹی کا نام آپکی ایک اناؤنسرکے نام پر رضوانہ رکھاہے‘انجمن کا اور سامعین کا شکریہ‘ فقط مشرف خاں۔ شورگراں محلہ، اجمیر۔“میں نے لندن سے چلتے وقت وہ خط بڑی احتیاط سے اپنے تھیلے میں بند کرلیا اور اجمیر پہنچ کر وہ خط ہاتھ میں لئے اور راہگیروں سے راستہ پوچھتا پوچھتا میں اجمیر کے محلہ شور گراں جاپہنچا۔ مشرف خاں کے گھر کے دروازے پر دستک دی‘ انہوں نے دروازہ کھولا‘میں نے کہا’میں رضا علی عابدی ہوں۔‘کہنے لگے ”میں سمجھا نہیں۔“اور میں اپنا اتاپتا بتانے والا ہی تھا کہ مجھ سے لپٹ گئے‘ دوڑ کر خاتون خانہ کو اطلاع کی‘ جھٹ پٹ بیٹھنے کا کمرہ آراستہ کیاگیا اور اس بار مجھے اندر لے جانے کے لئے آئے تو ہونٹوں پر ایسا تبسم کہ جس پر بے ساختہ پیار آئے‘ مشرف خاں محکمہ تعلیم میں ملازم تھے اور ترقی کرکے بہترعہدہ پانے کیلئے امتحان کی تیاری میں مصروف تھے‘ مجھے گھر میں لے گئے‘ہم بالائی منزل پہنچے جو مشرف خان کا چمن تھا۔ بیٹھک کا دروازہ کھلا‘سامنے مسہری پر ایک منی سی سانولی سی اور پیاری سی بچی بالکل نئی فراک پہنے اور آنکھوں میں بہت سا کاجل لگائے بیٹھی تھی۔ مشرف خاں نے کہا ’یہ ہیں رضوانہ‘ماشاء اللہ کہہ کر میں نے دونوں ہاتھ پھیلا دئیے۔ کسی اجنبی کی گود میں بچے کم ہی آتے ہیں مگر اس نے مسکرا کر بانہیں پھیلا دیں‘میں نے جوں ہی ننھی رضوانہ کو گود میں لیا اس نے آہستہ سے اپنا سرمیرے شانے پر رکھ دیا۔ہاں تو جب میں نے ریڈیو کی دنیا میں قدم رکھا اور ہماری تربیت شروع ہوئی تو پہلے پہل یہ گر سکھایاگیا کہ اپنی آواز سے محبت کرو۔ریڈیو سے میرا تعلق ختم ہوا مگر سینے میں وہ چھوٹی سی لَو اب بھی باقی ہے‘ اسکی روشنی بھی اور اسکی حرارت بھی۔