اپنی کتاب”بیتے ہوئے کچھ دن ایسے ہیں“ میں نصرت نسیم بیتے دنوں کی یادوں کو ٹٹولتے ہوئے لکھتی ہیں ”لیجئے ایک اور خوشگوار یاد نے اپنی آغوش میں لے لیا سکول کی طرف سے کل مینا بازار ہے بہت بڑے پیمانے پر یہ مینا بازار سکول سے باہر جہاں پرانی جیل تھی اس کے دروازے کے باہر شاید اپوا کے کسی ادارے کا بہت بڑا پردہ باغ تھا، یہ مینا بازار صبح سے شام تک رہتا،سکول کی بچیاں اور اساتذہ کھانے پینے کی چیزوں کے سٹال لگاتیں‘ اسکے علاوہ ورائٹی شو بھی اندر ہال میں جاری رہتا جس کیلئے الگ سے ٹکٹ لینا پڑتا اس زمانے میں خواتین کے باہر نکلنے اورتفریح کے مواقع نہ ہونے کے برابر تھے اسلئے اس مینا بازار میں خواتین بڑے ذوق و شوق سے شریک ہوتیں لہٰذا اس موقع کیلئے بطور خاص اچھا سا جوڑا سلواتی لیکن اس دفعہ جوڑا تیار نہ ہو سکا ڈیڈی کو پتہ چلا تو گھر کے سامنے درزی کی دکان تھی خود میرا سوٹ لے کر گئے ساتھ ہی پلیٹ میں درازی کیلئے حلوہ بھی لے گئے اور بڑے پیار سے کہا کہ وہ میرا جوڑا سی دے۔ درازی نے گھنٹے کے اندر اندر میرا جوڑا سی دیا یہ پنک رنگ کا سلک کا سوٹ تھا جس کو اس زمانے میں ساٹن کہا جاتا تھا۔درزی نے جدید فیشن کے مطابق میرا سوٹ سیا‘ صبح جب پہن کر گئی تو تمام دوستوں نے خوب خوب تعریفیں کیں اتنی کہ سارا دن مینا بازار میں اُڑی اُڑی پھرتی رہی آج یادوں کے اُفق پر کیسے ماہتاب طلوع ہوئے کہ دل و دماغ کو روشن کرگئے....ایک ایک کرکے ستاروں کی طرح ڈوب گئے...ہائے کیا لو گ میرے حلقہ احباب میں تھے... ساتویں کلاس میں آئی تو ایک نئی مشکل آن کھڑی ہوئی ہم توحساب کے ہاتھوں نالاں تھے اب الجبرا جان کو آگیا پیاری آپاجی نام کی طرح پیاری اور بہت نفیس اور شفیق خاتون تھیں چونکہ ان سے گھریلو مراسم بھی تھے اس لئے میرا خصوصی خیال رکھتیں اور بہت توجہ اور محبت سے الجبرا سمجھانے کی کوشش کرتیں مگر ہم سمجھنے کی بجائے الجھ جاتے‘ پتہ نہیں یہ سب سوال ہماری سمجھ سے بالاتر کیوں تھے حساب تو پھر بھی کچھ نہ کچھ کر لیتی مگر یہاں آکر ہم پریشان ہوگئے کہ ایسا کیسے چلے گا۔آگے بورڈ کا امتحان پاس کرنا ہے اس زمانے میں آٹھویں کا بورڈ کا امتحان ہوا کرتاتھا اور نصاب کی کتابیں خاصی ضخیم اور مشکل ہوا کرتی تھیں ہماری اس مشکل کو دیکھ کر کسی دوست نے مشورہ دیا فارسی لے لو کیا ایسا ہو سکتا ہے؟ ہاں اگر مریم قرشی لے لیں تو‘ مریم قریشی جنگل خیل کی تھیں نیا نیا ایم اے کرکے آئی تھیں اور بہت سخت گیر تھیں دو ماہ گزر چکے تھے لڑکیاں کافی کچھ پڑھ چکی تھیں تو مشکل نظر آرہا تھا کہ وہ مجھے فارسی کی کلاس میں بیٹھنے کی اجازت دیں خیر ان کی کلاس میں جاکر درخواست کی حسب توقع انہوں نے سختی سے ہماری درخواست رد کردی اب ہم نے ہارمانے بغیر ایک اور درخواست کردی کہ چلیں ایک دودن اپنی کلاس میں بیٹھنے کی اجازت دیں اگر ہماری کارکردگی اچھی نہ ہو تو بے شک داخلہ نہ دیں اس پر وہ مان گئیں اور سر کی جنبش سے بیٹھنے کا اشارہ کیا فارسی بھی کیا شیریں زبان ہے اتفاق سے اس دن وہ اقبال کی نظم پڑھا رہی تھیں ”تیز ترک گامزن منزل مادور نیست اس نظم کی نغمگی نے ہمیں مسحور کر دیا‘ سبق کے دوران انہوں نے جو سوال پوچھے ان کے ایسے جواب دیئے کہ کلاس کے اختتام پر انہوں نے رضامندی ظاہر کردی یوں فارسی میں ہمارا داخلہ ہوگیا اور الجبرا جیومیٹری سے ہماری جان چھوٹ گئی۔ ”تیز ترک گامزن منزل مادور نیست“ بس اب راوی چین ہی چین لکھتا تھا سکول میں دوسرے تیسرے دن اسمبلی میں اقوال زریں اور چھوٹے چھوٹے مضمون پڑھنے لگی ہفتہ واربزم ادب کے پروگرام اور بیت بازی کے مقابلوں میں حصہ لیتی۔ اب آج کل کے مہنگے نجی سکول بھی ہمارے زمانے کے گورنمنٹ سکولز کا مقابلہ نہیں کر سکتے جہاں تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت اور ہم نصابی سرگرمیوں اور ادبی شعور کے ذریعے کردار سازی کی جاتی تھیں اساتذہ کرام بھی محنت‘ سادگی و جاں فشانی کاپیکر تھیں۔“ اس منتخب اقتباس کا حاصل مطالعہ وقت گزرنے کے ساتھ بیتے دنوں کی یادوں کی قدر و قیمت میں اضافہ ہے کیونکہ بیتے لمحے پھر ہاتھ نہیں آتے۔