سفر ناموں کا اصل دلچسپ پہلو یہ ہوتا ہے کہ کسی علاقے کے رہن سہن اور کھانے پینے کیساتھ شہروں سے متعلق پوری معلومات غیر محسوس انداز میں مل جاتی ہیں اور اس میں اہم کردار کسی بھی سفرنامہ لکھنے والے کے مشاہدے اور طرز تحریر کا ہوتا ہے۔ جس میں وہ نہ صرف کسی جگہ یا خاص مقام کے حوالے سے ایک سیاح کے طور پر اپنے مشاہدات تحریر میں لاتا ہے بلکہ کئی دیگر اہم پہلوؤں پر بھی روشنی ڈالتا ہے، معروف براڈ کاسٹر آغا ناصر اپنے سفرنامے میں ان عناصر کا بہت خیال رکھتا ہے ایک مقام پر لکھتے ہیں کہ واشنگٹن ہمارے سفر کی آخری منزل تھی‘ ہم نے میزبانی کیلئے جس دوست کے گھر کا انتخاب کیا اسکا نام اختر عباس تھا‘ ریڈیو پاکستان کراچی میں ہم دونوں اکٹھے کام کرتے تھے‘وہ بڑی باغ و بہار شخصیت کے مالک تھے‘مشرقی پاکستان میں خاصہ عرصہ رہ چکے تھے‘ اسلئے محبت میں اپنے دوستوں کو ’دادا‘کہتے تھے‘ہم سب بھی انہیں دادا کہتے تھے‘وہ گاتے بہت اچھا تھے۔ میرے ایک اور بہت قریبی دوست ایس ایم وسیم بھی ان دنوں وائس آف امریکہ میں تھے‘وسیم بہت باتونی اور غضب کا فقرے باز تھا‘ریاض فرشوری اسے بہت چھیڑتا تھا‘سچ پوچھیں تو واشنگٹن آنے کی مجھے سب سے زیادہ خوشی اس بات کی تھی کہ مدتوں بعد بچھڑے ہوئے وسیم سے ملاقات ہوگی‘ واشنگٹن بڑا پرشکوہ اور عالی شان شہر ہے‘ مجھے یہ امریکہ کے ان سارے شہروں سے مختلف لگا‘وفاقی حکومت کے دفاتر‘ ایوان صدر‘ ایوان نمائندگان‘ عدالت عالیہ اور وزارت دفاع یعنی پینٹاگون کی عمارتیں‘ واشنگٹن کی خصوصی پہچان ہیں۔ ہمیں چار روز یہاں قیام کرنا تھااسلئے بڑے اطمینان کیساتھ ہم نے ایک ایک کرکے شہر کے سارے قابل دید مقامات دیکھ لئے‘ عین درمیان‘ شہر میں ایک طویل کشادہ شاہراہ پر جسے ”دی مال“ کہاجاتا ہے جارج واشنگٹن اور تھامس جیفرسن کی یادگاریں ہیں اور اس خیابان کے اختتام پر ایک پہاڑی پر امریکی کانگریس سینٹ اور سپریم کورٹ کی عمارتیں ہیں‘ہر روز ان اہم عمارتوں کو دیکھنے والوں کا ہجوم ہوتاہے‘ واشنگٹن آنے والوں کیلئے یہ ممکن نہیں ہے کہ یہاں آئیں اور کیپیٹل ہل کی عمارت کا دورہ کئے بغیر واپس چلے جائیں‘یہ ریاست ہائے متحدہ کا عصبی مرکز ہے‘حکومت کے سارے فیصلوں کی تائید‘ تردید یا تنقیدانہی ایوانوں میں ہوتی ہے‘ایک طرف سے دیکھا جائے تو کیپیٹل ہل نہ صرف امریکہ بلکہ شاید پوری دنیا کیلئے کئے جانیوالے فیصلوں کا مرکزہے‘جارج واشنگٹن کو بابائے امریکہ اسلئے کہاجاتاہے کیونکہ وہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے بانیوں کا رہنماتھا۔ ساتھ اس شاہراہ پر امریکہ کے سولہویں صدر کی یادمیں بھی ایک عالیشان عمارت ہے‘جسے لنکن میموریل کہتے ہیں‘ صدر لنکن کی ہلاکت کے فوراً بعد ہی اس کو تعمیر کرنے کا فیصلہ کیاگیا تھا‘ یہ مقام اب عوامی جلسوں اور ریلیوں کیلئے بھی مشہور ہے۔“ اس منتخب اقتباس کا حاصل مطالعہ منصف کا منفرد طرز تحریر ہے جو پڑھنے والے کو متاثر کئے بغیر نہیں رہتا۔
اشتہار
مقبول خبریں
معاشی تعلقات کادور
مہمان کالم
مہمان کالم
یوم سیاہ کشمیر
مہمان کالم
مہمان کالم
پروفیسر ڈاکٹر ناصر الدین اعظم خان
مہمان کالم
مہمان کالم
معاشی ترقی کی نوید
مہمان کالم
مہمان کالم