اجنبی دیس میں  (سید ابو یاسر)

کسی اجنبی سے ملاقات میں تعارف ایک اہم مرحلہ ہوتا ہے جس میں نہ صرف دو اجنبی ایک دوسرے کو جان پاتے ہیں بلکہ یہ ایک طرح سے دو معاشروں کا ایک دوسرے تعارف ہوتا ہے۔ا ور دیکھا جائے تو سفر اور سیاحت کا سب سے بڑا فائدہ ہی یہی ہوتا ہے کہ اس کے ذریعے کسی کو مختلف معاشروں کو سمجھنے کا موقع مل جاتا ہے اور کہتے ہیں کہ جو شخص زیادہ زبانیں جانتا ہو یا زیادہ معاشروں سے اگاہی رکھتا ہو وہ درحقیقت ایک انمول اثاثہ پا چکا ہے جو اسے دوسروں سے ممتاز بناتا ہے۔ سفر کو اسی لئے وسیلہ ظفر یا کامیابی کا زینہ کہا جاتا ہے کہ یہ انسان کو ایسے تجربات سے آشنا کرتا ہے جو بصورت دیگر کبھی حاصل نہ ہو پاتے یعنی سفر کے دوران جو تجربات حاصل ہوتے ہیں وہ حقیقت میں ایک کتاب کا مطالعہ کرنے سے مشابہہ ہے یعنی جس طرح آپ کتاب پڑھتے ہوئے نت نئی معلومات حاصل کرتے ہیں اسی طرح سفر کے دوران بھی آپ کو ہر موڑ پر نئی باتیں معلوم ہوتی ہیں جو آگے جا کر انسان کے تجربے میں بیش بہا اضافے کی صورت میں اپنا حصہ ڈالتی ہیں معروف براڈ کاسٹر آغا ناصرنہ صرف الیکٹرانک میڈیا سے اپنی وابستگی کے دوران گرانقدر خدمات کیلئے مشہور ہیں بلکہ بطور سیاح انہوں نے جو سرگزشت لکھی ہے وہ بھی ان کی بطور مصنف شہرت کا باعث ہے۔ اپنی کتاب میں جاپان کے سفر میں تعارف کے ایک مرحلے کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ہوٹل میں صبح آنکھ کھلی تو مجھے احساس ہوا کہ مشرقی دیوار میں ایک کھڑکی بھی ہے میں نے بستر سے اٹھ کر کھڑکی کے پٹ کھولے تو ایک انتہائی دلکش منظر سامنے تھا آسمان سے برف کے سفید سفید گالے گررہے تھے برفباری کا نظارہ چھوڑ کر جب میں ناشتہ کے لئے کیفے ٹیریا میں آیا تو وہاں بڑی رونق تھی کیفے ٹیریا لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا ملک ملک کے لوگ بھانت بھانت کی بولیاں بول رہے تھے یہ سارے لوگ اسی عمارت میں مقیم تھے اور مختلف تربیتی کورسوں یا کانفرنسوں کے سلسلے میں جاپان آئے تھے سفید پوشا کوں میں ملبوس جاپانی لڑکیاں بڑی پھرتی کیساتھ اشیائے خوردونوش پیش کررہی تھیں‘ میں تھوڑی دیر دروازہ پر کھڑااس دلچسپ منظر کو دیکھتا رہا پھر میری نظر زمان علی خان پر پڑی جو ذرا دور ایک کونے میں بیٹھا کسی جاپانی لڑکی سے محو گفتگو تھا میں لپک کر اس کے پاس پہنچا جاپانی لڑکی جو صورت میں خاصی معتبر معلوم ہوتی تھی مجھے دیکھ کر اٹھ کر کھڑی ہوئی زمان نے اس کا تعارف کرایا یہ مچیکو کوابوچی ہیں JICAکے دفتر سے آئی ہیں یہ ہمارے کورس کی کو آرڈی نیٹر ہیں مچیکو کاوابوچی نے مخصوص جاپانی انداز میں جھک کر کمر کو تقریباً دہرا کر تے ہوئے جاپانی سلام کیا اور پرس سے اپناو زیٹنگ کارڈ نکال کر مجھے پیش کیا ہمیں ٹوکیو میں قیام کے دوران بعد میں یہ معلوم ہوا کہ جاپان میں وزیٹنگ کارڈ پیش کرنا بے حد ضروری ہوتا ہے کسی سے تعارف کے بعد پہلا عمل یہی ہوتا ہے میں نے وزیٹنگ کارڈ پر نظر ڈالی اور پھر با آواز بلند اس کانام دہرایا’مچیکو کاوابوچی کیا میں نے آپ کا نام صحیح تلفظ کے ساتھ ادا کیا ہے۔’بالکل صحیح‘ اس نے خوش دلی سے جواب دیا ہم کرسیوں پر بیٹھ گئے زمان علی خان جو اس کیفے ٹیریا میں مجھ سے دس منٹ سینئر تھا کاؤنٹر پر چائے کا آرڈر دینے چلا گیا میں نے وزیٹنگ کارڈ کو ایک بار پھر غور سے دیکھتے ہوئے اس سے کہا’میں مچیکو نام کی ایک جاپانی لڑکی کو جانتا ہوں‘کیسے آپ کو وہ لڑکی کہاں ملی۔ کون ہے وہ اس نے بڑی دلچسپی سے پوچھا وہ جاپان کے ولی عہد کی منگیتر ہے اور اس کا پورا نام مچیکو سوڈا ہے میں نے ہنستے ہوئے کہا۔ میری بات سن کر وہ کھلکھلاکر ہنس پڑی اور ایسا کرتے ہوئے اپنی انگلیوں سے ہونٹ چھپالئے یہ جاپانی کلچر میں شامل ہے لڑکیاں جب ہنستیں ہیں تو ایسا کرتے ہوئے ہتھیلی اپنے منہ پر رکھ لیتی ہیں ہم آپ کو کیا کہہ کر پکاریں مس یامسز؟ ہم نے دریافت کیا مچیکو کاوابوچی نے جواب دیا مس اور مسز کہنے کی ضرورت نہیں ہے دونوں صورتوں میں ایک ہی لفظ استعمال کیا جاسکتا ہے آپ مجھے مچیکو سن کہہ کر پکارسکتے ہیں اور ’سن‘ نہ صرف عورتوں بلکہ مردوں کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے۔“ آغا  ناصر کی سر گزشت سے ا س منتخب اقتباس کا حاصل مطالعہ سفر کے دوران پیش آنے والے دلچسپ واقعات کو قلمبند کرنے کافن ہے، جسے پڑھتے ہوئے ایک قاری اپنے آ پ کو اسی ماحول کو حصہ سمجھنے لگتا ہے جس کا تذکرہ مصنف اپنے زور قلم سے کچھ اس انداز میں کرتا ہے کہ ارد گرد کا ماحول پڑھنے والے پرمکمل طور واضح ہوجاتا ہے۔