مشہور مصنف اور دانشور اشفاق احمد کی تحریروں کو ہر مرتبہ پڑھنے پر تازہ محسوس ہوتی ہے اور اس کی وجہ مصنف کا بے ساختہ اندازہے،ان کی نشری تقاریر اس اسلوب کا بہترین نمونہ ہیں، ایک مقام پر لکھتے ہیں کہ جب میں نے اپنے گھر میں اپنی یہ خواہش بیان کی کہ میں سرکس میں اپنے کمالات دکھاؤں گا تو میری نانی ”پھا“ کرکے ہنسی اور کہنے لگیں‘ ذرا شکل تو دیکھو! یہ سرکس میں کام کرے گا۔ میری ماں نے بھی کہا‘ دفع کر تو بڑا ہو کو ڈپٹی کمشنر بنے گا۔ تو نے سرکس میں بھرتی ہو کر کیا کرنا ہے‘ اس پر میرا دل بڑا بجھ سا گیا‘میرے والد سن رہے تھے‘ انہوں نے کہا کہ نہیں‘ کیوں نہیں؟ اگراس کی صلاحیت ہے تو اسے بالکل سرکس میں ہونا چاہئے۔ تب میں بہت خوش ہوا۔ انہوں نے صرف مجھے اجازت ہی نہیں دی‘ بلکہ ایک ڈرم جو ہوتا ہے تارکول کا‘ اس کولال‘ نیلا اور پیلا پینٹ کرکے بھی لے آئے اور کہنے لگے‘ اس پر چڑھ کر آپ ڈرم کو آگے پیچھے رول کیا کریں اس پر آپ کھیل کریں گے سرکس کے جانباز کھلاڑی بن سکیں گے۔ میں نے کہا منظور ہے۔چنانچہ میں اس ڈرم پر پریکٹس کرتا رہا۔ میں نے اس پر اس قدر اور اچھی پریکٹس کی کہ میں اس ڈرم کو اپنی مرضی اورمنشاء کے مطابق کہیں بھی لے جا سکتا تھا۔ پھر میں نے اس ڈرم کے اوپر چڑھ کر ہاتھ میں تین گیندیں ہوا میں اچھالنے کی پریکٹس کی‘ وہاں میرا ایک دوست تھا۔ ترکھانوں کا لڑکا محمد رمضان اس کو بھی میں نے پریکٹس میں شامل کر لیاوہ مجھ سے بھی بہتر کام کرنے لگا بجائے گیندوں کے وہ تین چھریاں لے کر ہوا میں اچھال سکتا تھا۔ ہم دونوں ڈرم پر چڑھ کر اپنا یہ سرکس لگاتے۔ ایک ہماری بکری تھی‘ اس کو بھی میں نے ٹرین کیا۔ وہ بکری بھی ڈرم پر آسانی سے چڑھ جاتی۔ خیر! ہم یہ کھیل دکھاتے رہے۔ ہم اپنا شو کرتے تو میرے ابا جی ہمیشہ ایک روپیہ والا ٹکٹ لے کر کرسی ڈال کر ہماری سرکس دیکھنے بیٹھ جاتے تھے۔ ہمارا ایک ہی تماشائی ہوتا تھا اور کوئی بھی دیکھنے نہیں آتا تھا۔ٹھیک چوالیس برس بعد جب میرا پوتا جو بڑا اچھا‘ بڑا ذہین لڑکا‘ وہ جاکنگ کرکے گھر میں واپس آتا ہے‘ تو اس کے جوگر‘ جوکیچڑ میں لتھڑے ہوتے ہیں وہ ان کے ساتھ اندر گھس آتا ہے اور وہ ویسے ہی خراب جوگروں کے ساتھ چائے بھی پیتا ہے اور سارا قالین کیچڑ سے بھر دیتا ہے۔ میں اب آپ کے سامنے اس بات کا اعتراف کرنے لگا ہوں کہ میں اسے برداشت نہیں کرتا تھا کہ وہ خراب‘ کیچڑ سے بھرے جوگروں کے ساتھ قالین پر چڑھے۔ میرا باپ جس نے مجھے ڈرم لا کر دیا تھا‘ میں اس کا بیٹا ہوں اور اب میں پوتے کی اس حرکت کو برداشت نہیں کرتا۔ایک اور مقام پر لکھتے ہیں کہ میں ابھی جس راستے سے آیا ہوں‘ مجھے آدھ گھنٹہ کھڑا رہنا پڑا‘ کیونکہ ہماری بتی تو سبز تھی‘ لیکن دوسری طرف سے آنے والے ہمیں گزرنے نہیں دیتے تھے اور راستہ نہ دے کر کہہ رہے تھے کہ کر لو جو کرنا ہے‘ ہم تو اس ڈسپلن کو نہیں مانتے۔یہ سوچ خطرناک ہے‘ بظاہر کچھ باتیں چھوٹی ہوتی ہیں‘ لیکن وہ نہایت اہم اور بڑی ہوتی ہیں‘ میں نے تھوڑے دن ہوئے ایک ٹیکسی ڈرائیور سے پوچھا جیسا کہ میری عادت ہے ہر ایک سے پوچھتا رہتا ہوں‘ کیونکہ ہر ایک کا اپنا اپنا علم ہوتا ہے کہ آپ کو سب سے زیادہ کرایہ کہاں سے ملتا ہے۔ اس نے کہا کہ سر مجھے یہ تو یاد نہیں کہ کسی نے خوش ہو کر زیادہ کرایہ دیا ہو‘ البتہ یہ مجھے یاد ہے کہ میری زندگی میں کم سے کم کرایہ مجھے کب ملا اورکتنا ملا‘ میں نے کہا کتنا کہنے لگاآٹھ آنے‘ میں نے کہا وہ کیسے کہنے لگا جی بارش ہو رہی تھی یا ہو چکی تھی‘ میں لاہور میں نسبت روڈ پرکھڑا تھا‘ بارش سے جگہ جگہ پانی کے چھوٹے چھوٹے جوہڑ سے بنے ہوئے تھے تو ایک بڑی پیاری سی خاتون وہ اس پٹڑی سے دوسری پٹڑی پر جانا چاہتی تھی‘ لیکن پانی کے باعث جا نہیں سکتی تھی‘ میری گاڑی درمیان میں کھڑی تھی‘ اس خاتون نے گاڑی کا ایک دروازہ کھولا اور دوسرے سے نکل کر اپنی مطلوبہ پٹڑی پر چلی گئیں اور مجھے اٹھنی دے دی۔ ایسی باتیں ہوتی رہتی ہیں‘ مسکرانا سیکھنا چاہئے اور اپنی زندگی کو اتنا”چیڑا“(سخت) نہ بنالیں کہ ہر وقت دانت ہی بھینچتے رہیں۔ مجھے یقین ہے کہ آپ ڈسپلن کے راز کو پالیں گے اور خود کو ڈھیلا چھوڑیں گے اور ریلیکس رکھیں گے۔“ ان منتخب اقتباسات کا حاصل مطالعہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر غور کرنا ہے جن میں سیکھنے کو بہت کچھ ملتا ہے۔