ٹرین کا سفر (سید ابو یاسر)


معروف صحافی رضا علی عابدی کی تحریر اور ریڈیو پروگراموں کی خصوصیت یہ ہے کہ ان میں کسی بھی علاقے کے جغرافیے ثقافت اور لوگوں کے مزاج کی تفصیل بھی آجاتی ہے اپنی ایسی ہی تحریر میں وہ بھکر اور لیہ کے علاقوں سے متعلق لکھتے ہیں کہ ادھر سورج نکلا ٗادھر بھکر سے میری ٹرین ڈیرہ غازی خان کی طرف روانہ ہوئی‘ٹرین فراٹے بھرتی ہوئی لیہ کی طرف چلی‘ یوں لگا کہ پنجاب کی سرزمین میں مانگ نکالتی جا رہی ہو‘راستے میں جگہ جگہ گاؤں آنے لگے‘ صاف ستھرے گاؤں۔ ان کی لپی پتی روشن دیواریں‘ان میں بسنے والے بھی ویسے ہی اچھے یہ جن پر صبح کی پہلی دھوپ کا نکھار تھا‘ بچے سڑک کے کنارے کھڑے تھے اور سکول جانے کیلئے شاید بس کا انتظار کر رہے تھے لڑکیاں بھی نیلی قمیض اور صاف سفید شلوار پہنے‘لال دوپٹے اوڑھے سکول جا رہی ہیں یہ سب پڑھ لکھ جائیں گے تو کتنا اچھا ہوگا۔ذرا آگے چلے تو راستے میں باغات آگئے جن کے درختوں کی شاخیں پھلوں کے بوجھ سے جھکی جھکی جا رہی تھیں‘کوئلے کی بھٹیاں سلگ رہی تھیں جن سے ہلکی رنگت کادھواں اٹھ رہا تھا‘ قریب ہی لکڑی کے ڈھیر تھے جنہیں جلا کر کوئلہ بنایا جارہا تھا اور دوسری طرف کوئلے کے انبار بھی تھے جب میں بھکر سے اس ٹرین میں سوار ہوا تو اس کے کنڈیکٹر گارڈ آگئے صبح مجھے ناشتہ نہیں مل سکا میں بھوکا تھا‘ و ہ میرے لئے حلوہ پوری لے آئے‘ کچھ دیر بعد اس گاڑی کے ٹکٹ چیکر صاحب آگئے ٗوہ بھی اپنے دکھ دیر تک بتاتے رہے ٗ ان کا بیٹا بڑا ہوگیا ہے پہلے ریلوے کے ملازموں کے بیٹوں کو ریلوے میں ملازمت مل جایا کرتی تھی مگر اب ملازم زیادہ ہیں ان کے بیٹے بھی بہت ہیں اسلئے نوکری کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔اس دوران ہماری گاڑی لیہ سے آگے نکل گئی‘ تھوڑے فاصلے پر گاؤں تھے کہیں کوئی علاقہ ویران نہیں تھا۔اس تحریر کا حاصل مطالعہ یہ ہے کہ لکھنے والوں کو مدنظر رکھنا چاہئے کہ ان کی تحریروں میں معلومات کا ذخیرہ ہوتاکہ پڑھنے والا مطالعے کیساتھ آگہی حاصل کرے۔