قلم وکتاب سے دوستی جس نے بھی کی اسے ہمیشہ اس کا فائدہ ہی ہوا ہے اور یہ وہ صفت ہے کہ کسی کو بھی زندگی کے کسی بھی شعبے میں امتیازی حیثیت دلانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے، کتاب”بیتے ہوئے کچھ دن ایسے ہیں“کی مصنفہ نصرت نسیم اپنی قلم دوستی کے حوالے سے لکھتی ہیں کہ”اس زمانے میں آٹھویں کا سالانہ امتحان بورڈ کا ہوا کرتا تھا۔اس لئے سب سے اچھی اور محنتی اساتذہ ہمارے حصے میں آئیں۔پڑھائی کا بوجھ بڑھ گیا مگر ساتویں آٹھویں کا یہ دور بہت دل نشیں اور یادگار تھا۔ اب میں اپنی پوتی اور نواسی کو دیکھتی ہوں کہ احساسِ جمال سے مالا مال اور پر اعتماد کہ ہے کوئی ہم سا؟ہم سا ہوتو سامنے آئے!۔افسوس ہم اس احساس سے بیگانہ رہے‘ساتویں او ر آٹھویں کا دور میرے لئے ایک نئے عہد اور دور کا نام ہے کہ جب عزت،شہرت اور ایک نئی شناخت ملی۔آنہ لائبریری کی کتابیں تو ہم کب سے پڑھ رہے تھے۔لفظوں کے شیدائی اور اسیر۔اچھی کتابیں اور تحریریں مسرورومسحور کردیتیں۔یوں تو اے۔آرخاتون،نسیم حجازی اور بے شمار لوگوں کی کتابیں پڑھیں مگر شفیق الرحمان کا ساتھ مستقل رہا‘ان کی دھنک رنگ تحریر زندگی میں رنگ اور لبوں پر مسکراہٹیں بکھیرتی رہی اور پھر خود جانے کب قلم پکڑا اور اخبارات میں بچوں کے صفحے کے لئے نگارشات بھیجنے لگے مگر یہ ادراک نہیں تھا کہ کچھ لکھ سکتے ہیں۔یہ ادراک اور پہچان مس شکیلہ عباسی نے دی۔مس شکیلہ عباسی اور ان کے علمی وادبی خاندان کا تعلق لکھئنو سے تھا۔اس کے والد،بھائی اور بہن زہرہ عباسی سب شاعر تھے۔لمبے سے قداور دھان پان سی مس شکیلہ عباسی لکھنوی تہذیب کا نمونہ تھیں۔اردو کی بہترین استاد ہونے کے ساتھ ساتھ سکول کی بزم ادب کی نگران اور تمام ہم نصابی سرگرمیوں کی انچارج تھیں۔اردوکا صحیح تلفظ سکھانے میں انہوں نے بہت محنت کی۔خاص طور پر ق کی ادائیگی۔ ان کے سامنے اگر درست انداز میں اردو نہ پڑھی جاتی تو بہت برامانتیں۔بقول ان کے غلط تلفظ سن کر ان کے کانوں کو بہت تکلیف ہوتی ہے۔بالکل اسی طرح جیسے کوئی دیوار کو نا خنوں سے کھرچے۔انہوں نے ایک مضمون لکھنے کو دیا،”میرا نصب العین“۔اس زمانے میں خلاصہ نامی کوئی چیز نہیں پائی جاتی تھی،لہٰذا خط ہو یا مضمون جو لکھنا ہوتا خود سے ہی لکھنا ہوتا تھا اور گھر کے کام یعنی ہوم ورک میں بھی گھر والے کسی مدد کے روادارنہ تھے۔جو لکھنا پڑھنا ہوتا،خود ہی سب کچھ کرنا پڑتا،بس سالانہ نتیجہ دیکھ کر خوش ہو جاتے صرف خوش۔کوئی انعام وغیرہ نہیں جیسا کہ آج کل بچوں کی حوصلہ افزائی کے لئے دئیے جاتے ہیں۔ہاں تو بات کررہے تھے کہ ساتویں کلاس کے آغاز میں پہلا مضمون ”میرا نصب العین“کے عنوان سے لکھنے کو ملا۔اس مضمون کو لکھ کر دوسرے دن کاپی مس شکیلہ عباسی کو دکھائی۔انہوں نے پڑھ کر شاباش دی۔پیریڈ ختم ہوا تو تھوڑی دیر بعد دسویں کلاس کی باجیاں آگئیں کہ اپنی اردو کی کاپی دو۔مس شکیلہ نے منگوائی ہے۔پھر ایک دودن کاپی یوں گردش میں رہی کہ نویں اور دسویں جماعت جہاں جاتیں‘اس تحریر کا حاصل مطالعہ ہے کہ محنت سے پڑھانے والے اساتذہ کو خراج عقیدت کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہتا ہے۔