اعلیٰ ظرفی (سید ابو یاسر)

پی ٹی وی کے سابق سربراہ آغا ناصر کا شمار ان براڈ کاسٹرز میں ہوتا ہے جنہوں نے ریڈیو میں اپنی خدمات کے دوران اہم واقعات کا نہ صرف قریب سے مشاہدہ کیا بلکہ ان واقعات کو دلچسپ انداز میں قلمبند کرکے انہوں نے یہ ثابت کیا کہ وہ محض آواز کی دنیا کے باسی نہیں بلکہ الفاظ سے کھیلنے کا فن بھی جاتے ہیں اور یہ وجہ ہے کہ ان کی یاداشتوں کو پڑھتے ہوئے ایک طرح سے تازگی کا احساس ہوتاہے۔ آغا ناصر 1970ء کی دہائی میں درپیش صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ مجھے یہ زمانہ جانے کیوں اسوقت کی یاد دلانے لگا تھا جو آزادی کے فوراً بعد کا وقت تھا‘1972ء کئی معاملات میں 1948ء کی طرح کا تھا اس وقت پاکستان تعمیر ہورہا تھا اور اب نئے پاکستان کی تعمیر نو کا مرحلہ تھا مجھے یاد ہے ہندوستان سے ہجرت کرکے جب ہمارا خاندان 1948ء کے اوائل میں کراچی آیا تو میں بہت چھوٹا تھا اسلئے میں سارا وقت امور خانہ داری کے چھوٹے موٹے کام کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کرتا تھا میں نے وہ ایک پورا سال اسی طرح کچھ نہ کچھ کرتے گزارا مگر اب سوچتا  ہوں تو لگتا ہے میری زندگی کا سب سے زیادہ باثمر زمانہ شاید وہی تھی جسے میں بیکار‘فضول اور خالی سمجھتا تھا اس ایک سال میں‘ میں نے پاکستان کو بنتے دیکھا میں لاہور میں ہی تھا جب ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے ’زرعی اصلاحات‘ کا اعلان کیا ایک صبح مجھے راولپنڈی سے منیجنگ ڈائریکٹر کا فون آیا کہ اس خوشی میں سارے ملک میں جشن منانے کا فیصلہ کیاگیا ہے پاکستان ٹیلی ویژن اس موقع پر طویل دورانیے کی ٹرانسمیشن کا اہتمام کرے گا جس کا نام ’سوہنی دھرتی‘ تجویز کیاگیاتھا ہم نے بہت سے پروگرام عجلت میں ترتیب دیئے جن میں انٹرویو‘ مذاکرے‘کوئز شوز اور موسیقی کے پروگرام شامل تھے‘ ٹرانسمیشن کی ہائی لائٹ ایک مشاعرہ تھا جس میں لاہور کے تمام معروف شاعروں کو مدعو کیاگیا تھا اس شام ٹیلی ویژن مرکز پر بڑی گہما گہمی تھی ہر طرح کا ٹیلنٹ جمع تھا موسیقار‘گلوکار‘دانشور‘صحافی پروگرام کے میزبان اور اناؤنسر میرے کمرے میں شعراء کی بھیڑ تھی جن میں فیض صاحب بھی شامل تھے انہوں نے کہا ’بھئی ہم نے تو کبھی اس طرح کے قومی ترانے لکھے ہی نہیں جیسے ریڈیو اور ٹی وی پر نشر ہوتے ہیں تو پھر ہم اس مشاعرے میں کیا پڑھیں؟میں نے عرض کی ’فیض صاحب سوہنی دھرتی ٹرانسمیشن زرعی اصلاحات کے اعلان کے موقع پر منعقد کیا جارہا ہے لہٰذا آپ کوئی چیز کھیت کھلیانوں اور کسانوں کے بارے میں کیوں نہیں لکھ دیتے‘ میری بات سن کر انکے چہرے پر سوچ کے تاثرات پیدا ہوئے میں نے جان لیا تیر نشانہ پر لگا ہے‘لہٰذا ہمت کرکے ایک اور مشورہ بھی دے ڈالا‘فیض صاحب بات زمین کی ہے اس لئے کیا ہی اچھا ہو کہ آپ پنجابی زبان میں کچھ لکھیں وہ ہنسنے لگے‘بھئی ہم نے تو کبھی پنجابی میں کچھ نہیں لکھا’انہوں نے جواب دیا کوشش کرنے میں کیاحرج ہے میں نے اصرار کیا ٹھیک ہے لکھ دیں گے انہوں نے کہا آپ ہمیں کسی گوشہ تنہائی میں پہنچا دیں ہم کوشش کرینگے میں نے فوراً انتظامات کئے وہ اپنے چند دوستوں کیساتھ چلے گئے اور مشاعرہ شروع ہونے سے ذرا پہلے وہ واپس آئے‘انہوں نے اپنی پہلی پنجابی نظم لکھ دی تھی۔فیض صاحب ہمیشہ یہ کہا کرتے تھے کہ پہلی پنجابی نظم مجھ سے ایک ایسے آدمی نے لکھوائی جس کو پنجابی زبان نہیں آتی تھی“ اس منتخب اقتباس کا حاصل مطالعہ بڑے لوگوں کی بڑی باتیں اور وسیع القلبی ہے۔ جن شخصیات کا آغا ناصر  نے اپنی اس تحریر میں ذکر کیا ہے وہ اپنی ذات میں اکیڈمی کی حیثیت رکھتے تھے اور ان کے ساتھ جن لوگوں نے وقت گزارا انہوں نے بہت کچھ سیکھا۔یہ بھی سیکھنے کی ہی بات ہے کہ فیض احمد فیض جیسی شخصیت جا بجا یہ اعتراف کرتا ہے کہ ان کی پنجابی شاعری کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے۔یہی اعلیٰ ظرفی اور بڑے پن کی نشانی ہے کہ کوئی اپنے فن اور تخلیقی عمل کو کسی سے منسوب کرے۔ یہ صفت بہت کم لوگوں میں پائی جاتی ہے۔