مشہور مصنف اور براڈ کاسٹر رضا علی عابدی اپنے سفر نامے میں لکھتے ہیں کہ پشاور دنیاکے ان قدیم شہروں میں شامل ہے جو ہزار ہا سال سے آباد ہیں‘ حال یہ ہے کہ کہیں گڑھا کھودئیے تو اس میں سے پرانے پشاور کے آثار نکلتے ہیں‘ زیادہ گہرا گڑھا کھودئیے تو زیادہ پرانا پشاورنکلتا ہے۔ حیرت ہے۔ایسے قدیم شہر کے گلی کوچے دیکھتا ہوا میں ان گیراجوں میں پہنچا جہاں ٹرکوں اور بسوں پر پھول بوٹے بنائے جاتے ہیں اور مالک کے اپنے موزوں کئے ہوئے شعر لکھے جاتے ہیں۔ پھر میں نے بزرگوں کے مزار دیکھے۔ مگر مجھے تو اس مقام اور اس ٹھکانے کی تلاش تھی جہاں سے میری جرنیلی سڑک شروع ہوتی تھی۔ کسی نے بتایا کہ صدر کے علاقے میں جس جگہ پرانا ڈاک بنگلہ تھا‘ وہیں سڑک کے کنارے بڑا سا سفید پتھر کھڑا نظر آیا کرتا تھا، اب وہ نظر نہیں آتا۔یہ سن کر میں وہاں پہنچا جہاں سرکار انگلشیہ کا ڈاک بنگلہ تھا‘ اب وہاں سیمنٹ کی اونچی عمارت کھڑی تھی اور اس کے سامنے سڑک کے کنارے ایک بڑا سا میل کا پتھر اوندھا پڑا تھا جیسے اسے دھکیل کر نالی کے اوپر راہگیروں کے لئے پل بنادیاگیا ہو۔ مجھے یقین تھا کہ یہی زیروپوائنٹ کاپتھرہوگا۔ اس سڑک پر چلتے ہوئے گزرے وقت کی نشانیوں نے ایک لمحے کو بھی ساتھ نہیں چھوڑا۔ پشاور سے راولپنڈی کی طرف چلتے ہوئے دریائے سندھ پار کرنے سے پہلے میرے بائیں ہاتھ پر لہور اورہنڈ پڑے۔ قدیم قلعہ دیکھتے ہوئے میں اٹک سے گزرا‘ دریا کے اس حصے کو نیلگوں پانی کے تعلق سے نیلاب کہا جاتا تھا۔ دریا پار وہ مقام تھا جس کا نام باغ نیلاب تھا اور شیر شاہ سوری کے ہندوستان کی وہی سرحد تھی اور اس کے قبیلے کے فوجی بھرتی ہونے کے لئے دریا پار کرکے باغ نیلاب میں اترتے تھے اور جس تاریخی سڑک کا ہم سفر کر رہے ہیں، وہ پشاور سے نہیں،باغ نیلاب سے شروع ہوتی تھی۔حسن ابدال اور واہ کے پرانے آثار دیکھتے ہوئے ہم راولپنڈی پہنچتے ہیں۔ گکھڑوں کی اس سرزمین پر ہم جہلم کے قریب قلعہ رہتاس میں داخل ہوتے ہیں جسے شیرشاہ نے خیبر کی طرف سے ہونے والے حملوں کو روکنے کیلئے بنایاتھا۔ ویسا ہی اور اسی نام کا دوسرا قلعہ دور مشرق میں سہسرام کے مقام پر بنایاگیا تھا۔ جہلم کے رہتاس پر ایک روز بھی لڑائی نہیں ہوئی اور اس سے پہلے کہ لڑائی کی نوبت آتی، شیر شاہ کی واپسی کی نوبت بج گئی۔“اس منتخب اقتباس کا حاصل مطالعہ یہ احساس ہے کہ ہم بسا اوقات جہاں رہتے ہیں وہاں کے بارے میں وہ علم نہیں رکھتے جو دور بسنے والے رکھتے ہیں۔