اپنی کتاب ”بیتے ہوئے کچھ دن ایسے ہیں“ میں مصنفہ نصرت نسیم اپنی پرانی یادوں کو ٹٹولتے ہوئے لکھتی ہیں کہ حاجیوں سے بھرا ہوا شمس جہاز روانہ ہونے والا تھا ایسے وقت میں ہمیں جہاز کے اندر لے جانا مشکل تھا مگر ہماری مس نے ہارنہ مانی بال آخر ہم شمس جہاز کے اندر چلے گئے‘ نچلے حصے میں زیادہ تر بوڑھے حجاج کرام تھے،ہم دوسری منزل تک پہنچے تو سارا گروپ اوپر جہاں کپتان ہوتا ہے وہاں گیا پتا نہیں یہ کونسی منزل تھی ہم بے شمار سیڑھیاں چڑھتے چلے گئے اور جب بالکل اوپر پہنچے تو مبہوت کر دینے والا نظارا تھاچاروں طرف پھیلا سمندر‘ ڈوبتا سورج‘ شفق کی سرخی اور اس سرخی میں شرابور مچلتی لہریں‘ قدرت کی یہ کائنات اتنی حسین ہے کہ اس کو بیان کرنے کیلئے لفظ کم پڑ جاتے ہیں ہم سب اس منظر میں کھو سے گئے کہ کپتان نے اچانک ہارن بجا دیا آواز اتنی تیز تھی کہ ہم ڈر گئے وقت بھی کم تھا بھاگم بھاگ سیڑھیاں اترتے واپس آئے کہ جہاز کی روانگی میں تھوڑا سا وقت باقی تھا‘ پھر رات کو اوپن ائر میں فلم دیکھی یہ بھی ہمارے لئے نئی اور انوکھی چیز تھی دیکھنے کا اشتیاق بھی تھا خیر وہاں پہنچے تو لوگ اپنی کاروں میں بیٹھے فلم دیکھ رہے تھے ہم بھی بس سے اتر کر لان میں رکھی کرسیوں پر بیٹھ کر فلم دیکھنے لگے ایک اور خوبصورت شام بانی پاکستان کے دل آویز مقبرے پر گئے‘ فاتحہ پڑھی دل عقیدت و احترام اور محبت سے لبریز تھا...مزار قائد پر دل کی گہرائیوں پر فاتحہ پڑھی اور بلندی درجات کی دعا کی۔ ایک اور اہم واقعہ اور یادگاردن وہ تھا جس دن ہم جامعہ کراچی گئے ایک عظیم درس گاہ جسے ہم دیکھنے جا رہے تھے حسب معمول تیار ہو کر بسوں میں لد کر جامعہ کراچی پہنچے اور اپنی محترم اساتذہ کے پیچھے پیچھے اندر داخل ہوئے! مگر یہ کیا یہ تو لائبریری تھی اردو ڈیپارٹمنٹ کی جگہ غلطی سے ہم یہاں آگئے تھے یہ بہت بڑی لائبریری تھی اور بہت سے طالب علم خاموشی سے مطالعہ میں مصروف تھے کہ ہم ہنستے بولتے ہجوم کی صورت اندر داخل ہوئے سب کتابیں چھوڑ کر ہماری طرف متوجہ ہوگئے ہم سب کو اپنی غلطی کا احساس ہوا تو فوری طور پر وہاں سے نکلے اور شعبہ اردو کی جانب چل پڑے ایک آدھ شعبہ دیکھا اور واپس بس میں آکر ہم نے اور ہمارے بڑوں نے اطمینان کا سانس لیا ہم جامعہ کراچی کے تفصیلی دورے کی حسرت دل ہی میں رہ گئی۔ کراچی میں آخری دن خریداری کیلئے مختص تھا ہم سب بوہری بازار گئے اور مول تول کرکے خریداری کی قصر شیریں کے حلوے کا ڈبہ5روپے کا تھا کچھ وہ خریدے‘ کڑھائی والے کرتے اور دوپٹے لئے۔حیرت ہے 100،150روپے میں ہم نے ڈھیر ساری چیزیں خریدیں، کراچی سے واپسی ہم پھر ایک دن کیلئے لاہور میں رک گئے۔اوراس ایک دن میں بھاگم بھاگ سارے اہم مقامات دیکھ ڈالے۔ ہم لاہو رٹی وی سٹیشن گئے، اس وقت لاہور میں سربراہی کانفرنس ہورہی تھی اور جس سٹوڈیوز میں ہمیں لے جایا گیا وہاں، ہم مصطفوی مصطفوی ہیں“ کی ریکاڈنگ ہو رہی تھی، باری باری ہم بھی ٹی وی کیمرے کے آگے آگئے اور اپنی تصویر دیکھی، دوسرے دن ہم پشاور پہنچے، خوشگوار یادوں، باتوں اور تجربات کا خزانہ لئے جو اب تک خانہ دل میں محفوظ ہے۔ اس وقت سال اول اور سال سوم کے امتحان کالج کی سطح پر ہوتے اور پھر دو سالوں کے اکٹھے پیپر یونیورسٹی لیتی‘ کافی طویل امتحانات ہوتے‘ سخت گرمی اور اگست کے مہینوں میں۔ انہی دنوں میں سکالر شپ کیلئے درخواستیں دینے کا نوٹس لگا جن کے چھ سو یا چھ سو سے اوپر نمبر تھے ان سب نے سکالر شپ کے فارم فل کر دیئے‘ ہم پانچ چھ لوگ ایسے تھے کہ دس‘ پندرہ نمبروں کے فرق سے رہ گئے(یہ وہ دور تھا کہ چھ سو نمبروں پر میڈیکل میں داخلہ مل جایا کرتا تھا) سو دل مسوس کررہ گئے چند دن بعد دوبارہ نوٹس لگا کہ درخواستیں دیں تو اس میں ہمارا نام بھی آگیا۔”اس منتخب اقتباس کا حاصل مطالعہ یادوں کا خزانہ محفوظ کرنے کا فن ہے جس سے بعد ازاں استفادہ کرکے انسان ٹائم مشین کی طرح ماضی میں پہنچ کر ان یادوں سے دوبارہ لطف اندوز ہوسکتا ہے“۔