کتب خانے واقعی میں بہت بڑا اثاثہ ہوتے ہیں،جس میں کسی قوم کی ترقی اور اس کے ماضی و حال کے ساتھ مستقبل کے خدوخال پوشیدہ ہوتے ہیں، بد قسمتی سے ہمارے ہاں کتب خانوں کی حالت وہ نہیں رہی جو کسی وقت تھی، اب کتابوں کی جگہ ایسے ذرائع نے لے لی ہے جس میں معلومات تو ہیں تاہم مطالعے کی وہ یکسانیت اور توجہ مفقود ہوتی جارہی ہے جو کتاب سے وابستہ ہے۔کتب بینی ایک مفید مشغلہ ہے جس کے مثبت پہلوؤں کااحاطہ کرنا محدود سطروں میں مشکل ہے، تاہم اس کا سب سے بڑا فائدہ تو یہی نظر آتا ہے کہ کتب بینی سے علم و آگہی کے ساتھ ساتھ سکون بھی میسر آتاہے۔
معروف برآڈ کاسٹر رضا علی عابدی کتب کانوں پر دستاویزی پروگرام کیلئے کئے جانے والے سفر کی داستان بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب میں برصغیر کے دورے پر پہنچا اور قدیم کتابوں کے ذخیروں کی کھوج میں نکلا تو اندازہ ہوا کہ فیض صاحب سچ کہتے تھے، اتنے بڑے کام کیلئے ایک سال تو کچھ بھی نہیں، اس پر میں نے ایک فیصلہ کیا، میں نے طے کیا کہ پندرہ دن کا دورہ تو طے شدہ پروگرام کے مطابق کروں گا، اس کے بعد مجھے سالانہ چھٹیوں کا ایک مہینہ ملا ہے، وہ بھی اسی کام کی نذر کروں گا، میں یہ جانتا تھا کہ جس کام میں جی لگے اور خوشی حاصل ہو اسے چاہے دنیا کام کہے، مجھے تو اسی میں چھٹی کا لطف آتا ہے، تو یہ ہوا کہ کونے کھدروں میں جاکر بزرگوں کی کتابیں دیکھنے کا کام میں نے ڈیڑھ ماہ میں انجام دیا، میرے اس دورے کا بنیادی خیال یہ تھا کہ دیکھاجائے کہ برصغیر میں ہمارے بزرگوں کی چھوڑی ہوئی کتابیں کہاں کہاں ہیں اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ کس حال میں ہیں، اس کی تمہید پہلے باندھی چاچکی ہے کہ جب ہم نے برطانیہ کے کتب خانوں میں محفوظ اردو کی انیسویں صدی کی کتابوں کے بارے میں ایک سو چالیس پروگرام نشر کئے تو سننے والوں نے بڑے دھیان سے سنے لیکن جب ہم نے کہا کہ بس، یہ سلسلہ یہیں ختم ہوتا ہے تو احتجاج اور شکایتوں کی ایک لہر آئی جس کی نمائندگی سامعین کا یہ ایک فقرہ کرتا ہے کہ ایک تو آپ ہماری کتابیں لے گئے اور اب انہیں پڑھ کر سنا رہے تھے، اسے بھی بند کررہے ہیں۔بی بی سی نے اس اعتراض کا جواب یوں دینا چاہا کہ بزرگوں کی چھوڑی ہوئی کتابوں کے خود برصغیر کے اندر بھی بڑے بڑے ذخیرے موجود ہیں، بس یہ ہے کہ یا تو عام لوگوں کو ان کی خبر نہیں یا پھر ان کتابوں تک رسائی آسان نہیں اور سب سے بڑھ کر یہ گرد میں اٹی ہوئی قدیم اور فرسودہ کتابوں کی تلاش میں خاک کون چھانے، مثال کے طورپر لکھنؤ میں دو طالب علم ملے و اساتذہ کی شاعری کے موضوع پر ڈاکٹریٹ کررہے تھے لیکن چند گھنٹوں کے فاصلے پر رام پور کی رضا لائبریری انہوں نے دیکھی بھی تھی۔
خیر، اس طرح کے بہت سے قصے آگے آنے والے ہیں، میرے سفر کا نقشہ اردو سروس کے سربراہ ڈیوڈ پیج نے یوں تیار کیا کہ اسے دیکھیں تو لگتا ہے کہ میں انسان نہ تھا، گھن چکر تھا، ایک روز کراچی، ایک روز حیدر آباد، سندھ، ایک دن لاہور، ایک دن دلی، ایک دن رام پور، ایک دن لکھنؤ، ایک دن پٹنہ، ایک دن بھوپال اور ایک روز حیدر آباد دکن، البتہ انہوں نے یہ رعایت دیدی کہ بیچ میں ایک ایک دن کیلئے سفر چھوڑ دیا اور اس دوران مجھے نہ صرف ایک بھاری بھر کم موضوع پر تحقیق کرنی تھی بلکہ حیدر آباد سندھ اور پٹنہ، بہار میں اردو سروس کے سامعین کو ایک ایک ٹی پارٹی بھی دینی تھی، اس طرح کے دورے ڈیوٹی ٹور کہلاتے تھے، عملے کے مستعد افراد کو کبھی کبھار برصغیر کے دورے پر بھیجا جاتا تھا تاکہ جس خطے کیلئے پروگرام نشر کئے جاتے تھے اس کے بارے میں آگاہی رہے، ڈیوٹی ٹور پر جانے والے کے ذمے دو کام تھے، اول تو ایک دو مقامات پر سامعین کو ٹی پارٹی دے اور دوسرے یہ کہ مفید اور کارآمد لوگوں سے ملاقاتیں کرے اور واپس آکر ایک رپورٹ لکھ دے اور بس۔ اس لئے تمام اخراجات ادا کردیئے جاتے تھے اور سچ تو یہ ہے کہ دورے پر جانے والوں کی بہت آرام سے گزرتی ہوگی، میں دس سال تک دیکھتا رہا، میرے سینئر اور بااختیار ساتھی ہر بار خود ہی ڈیوٹی ٹور پر چلے جاتے تھے، اس میں بھی کوئی مصلحت ہوگی‘ دس سال بعد جن دنوں میرے دورے پر جانے کی باری آئی، اس وقت ڈیوڈ پیج شعبے کے سربراہ تھے، انہیں خود کام کرنے میں اتنا لطف آتا تھا کہ ایک بار دفتر ہی میں بستر ڈال لیا اورکئی روز تک اپنے گھر بھی نہ گئے۔“ اس منتخب اقتباس کا حاصل مطالعہ کتاب کی اہمیت اور اس کے ذریعے معاشرتی رویوں کو پروان چڑھانا ہے تو ساتھ ساتھ اپنے کام سے لگن بھی ہے جس کی موجودگی میں مشکل کام بھی آسان اور پر لطف لگتے ہیں جبکہ ا سکی عدم موجودگی میں کوئی بھی کام مشکل اور کوفت میں ڈالنے والا بن جاتا ہے۔
یہ اب ایک فرد پر منحصر ہے کہ اگر اسے کوئی کام کرنے کو ملا ہے تو وہ لگن اور شو ق سے کرے تاکہ وہ نہ صرف بخوبی انجام کو پہنچے بلکہ کرنے والے کیلئے لطف اور مزے کا سامان بھی مہیا کرے۔اس میں ہم سب کیلئے یہ مرکزی نکتہ سوچنے کا ہے کہ یہ تو کوئی فرد نہیں چاہے گا کہ وہ مشکل سے دوچار ہو مگر اپنے کام میں لگن کا مظاہرہ نہ کرنا تو عملی طور پر اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم آسانی اور سہولت کے مقابلے میں اپنے لئے مشکل کا انتخاب کررہے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی قابل غور امر ہے کہ جو کام لگن اور دلچسپی سے کیا جائے تواس میں معیار بھی آتا ہے۔ اس کے مقابلے میں جو کام بے دلی اور لگن کے جذبے کے بغیر کیا جائے تو وہ سر سے اتارنے والی بات ہوتی ہے۔کام تو انجام کو پہنچ جاتا ہے تاہم نہ کرنے والے کو وہ اطمینان میسر ہوتا ہے جو معیار کے مطابق کام کے انجام پانے کے بعد کسی فرد کو نصیب ہوتا ہے اور نہ ہی وہ کام اس قابل ہوتاہے کہ بعد ازاں کوئی فخر کے ساتھ اس کو کسی کے سامنے پیش کرے۔