یہ امر میرے نزدیک نہایت خوش آئند ہے کہ پشاور یونیورسٹی ٹیچرز ایسوسی ایشن(پیوٹا) کا سیشن2022-23ء کیلئے مخلوط کابینہ کا انتخاب عمل میں لایا گیا ہے منتخب ہونے والے نہایت متین معاملہ فہم‘ ملنسار اور محنتی اساتذہ ہیں اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ سبکدوش کابینہ ان اوصاف کی حامل نہیں تھی ویسے مخلوط اقتدار کی کار گزاری کی تاریخ تو کچھ زیادہ قابل ذکر نہیں رہی ہے تاہم جامعہ کو درپیش مسائل کو دیکھتے ہوئے یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ پیوٹا کی نئی قیادت یونیورسٹی انتظامیہ کیساتھ ٹیچرز کمیونٹی کی اکثریت کی چپقلش کے خاتمے یا کم از کم اس میں معقول کمی لانے کی سعی کو نظر انداز نہیں کرے گی۔
میرے خیال میں پیوٹا اور یونیورسٹی انتظامیہ کے وژن‘ مشن اور مقاصد میں کوئی تضاد یا اختلاف اس لئے بھی نہیں ہونا چاہئے کہ اعلیٰ تعلیم یا جامعات گزشتہ کچھ عرصے سے کسمپرسی کی جس حالت سے دوچار ہیں اسے دیکھتے ہوئے زیادہ سے زیادہ یگانگت محنت اور مشترکہ کاوشیں ناگزیر ہوگئی ہیں‘ بلاشبہ کہ اس وقت پنشن‘ ٹینور ٹریک سسٹم کے تحت کام کرنے والے اساتذہ‘ عرصہ سے ترقیوں سے محروم اساتذہ اور مالی بحران میں یونیورسٹی کو سنبھالنے اور چلانے جیسے مسائل درپیش ہیں ایسے میں اگر انتظامیہ اور فیکلٹی ایک پیج پر نہ آئے تو یہ مسائل مزید گھمبیر ہونگے جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ پیوٹا یا اساتذہ کے اٹھنے بیٹھنے اور غمی خوشی کے مرکز یعنی ٹیچرز کمیونٹی سنٹر کو یونیورسٹی کے اندر ایک متوازی ریاست یا انتظامیہ قرار دینے کا تاثیر دیا جارہا ہے تو میرے خیال میں یہ موقف اس لئے بھی بجا نہیں کہ امریکہ اور برطانیہ جیسے ممالک میں بھی اساتذہ‘ ڈاکٹرز اور انجینئرز وغیرہ کی انجمنیں قائم ہیں اور اپنی کمیونٹی کیساتھ دوسرے لوگوں کی خدمت بھی کر رہی ہیں بلکہ اپنی حکومتوں کا ہاتھ بھی بٹا رہی ہیں اس بابت شمالی امریکی ریاستوں میں پاکستانی ڈاکٹرز کی ایسوسی ایشن کی مثال بطور ثبوت دی جا سکتی ہے جو ہر آڑے وقت میں اپنے ملک پاکستان آکر دکھی ضرورت مند ہم وطنوں کے کام آتے ہیں زلزلہ ہو یا سیلاب یا پھر کورونا جیسی وباء یہی لوگ ہماری مدد کیلئے پہنچ جاتے ہیں اسی طرح ڈاکٹروں کی ایک بین الاقوامی تنظیم ”طبیبان بے سرحد“ کا تذکرہ بھی بے جا نہ ہوگا مطلب یہ کہ پشاور یونیورسٹی تو کیا صوبہ بھر کی جامعات بالخصوص قدرے پرانی درسگاہوں کی آج جو حالت ہے ایسے میں اگر مفاہمت اور یگانگت کی بجائے رقابت شعاری کو ترجیح دی جائے تو نتیجہ موجودہ قدرے مستحکم حالت جو کہ بلاشبہ وائس چانسلر ڈاکٹر محمد ادریس کی کاوشوں کا نتیجہ قرار دیا جا سکتا ہے دوسری پرانی یونیورسٹیوں کی مالی ابتری سے مختلف نہیں ہوگا جامعہ پشاور کو درپیش مسائل کے حل کے بارے میں ان سطور میں وقتاً فوقتاً تجاویز پر مشتمل میکانیزم کی نشاندہی کی گئی ہے مگر کیا کہئے کہ تاحال کوئی عمل سامنے نہیں آیا میرے خیال میں تعلیم کے بارے میں غیرسنجیدہ ریاستی رویئے کے بغیر بھی مسائل کے حل میں کسی حد تک پیش رفت ممکن ہے مگر اسکے لئے انانیت کے بت کو توڑنے اور تھوڑی سی قربانی دینے کی ضرورت ہوگی مثال کے طورپر پنشن کا مسئلہ جامعہ کے ملازمین کی مشترکہ حصہ داری اور ذرائع کو بروئے کار لاتے ہوئے حل کیا جا سکتا ہے اسی طرح نادار طلباء کے احساس محرومی کو بھی دور کیا جا سکتا ہے مگر یہ تب ہوگا جب ہمارا رویہ یہ نہ رہے کہ جو کچھ مجھے مل رہا ہے اس میں سے کوئی ٹکہ پیسہ چھوڑنے کیلئے تیار نہیں ہو یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ جامعہ پشاور میں جب اصلاحات کی بات کہی گئی تو تالہ بندی اور دھرنے شروع ہوگئے اب اس جیسے طرز عمل کے حامل لوگ تو مسائل حل نہیں کر سکتے البتہ مسائل کو بڑھانے اور الجھانے کا باعث ضرور بن سکتے ہیں پیوٹا کے حالیہ الیکشن میں پولنگ سے ایک دن بلکہ ایک رات قبل انتخابی امیدواروں بالخصوص صدارتی امیدواروں نے جامعہ اور اپنی کمیونٹی کیساتھ ساتھ دیگر ملازمین‘ طلباء اور یونیورسٹی کے انتظام و انصرام کے بارے میں جس عزم کا اظہار کیا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ اس پر کس حد تک عملدرآمد ہوگا؟ ایسا نہ ہو کہ یہ بھی سیاسی امیدواروں کے نعروں دعوؤں اور وعدوں کی طرح ایک وقتی اور موسمی معاملہ ثابت ہو۔