آوازوں کی دنیا (سید ابو یاسر)

مشہور مصنف اور  اپنے سفر ناموں کیلئے عالمی شہرت رکھنے والے ادیب مستنصر حسین تارڑ اپنے مشاہدات میں لکھتے ہیں کہ”دنیا کے ہر قدیم شہر کی آوازیں‘ صدائیں‘ سرگوشیاں‘ روشنیاں الگ اورمنفرد ہوتی ہیں اور یہ ہزاروں برس سے آباد ان بستیوں کی تاریخ اور ثقافت میں سے جنم لیتی ہیں...وہ دنیا کا سب سے قدیم آباد شہر جو اب برباد ہو رہا ہے‘ دمشق ہو‘ قرطبہ‘  یارقند‘ قونیا‘ تبریز یا استنبول ہو...آپ آنکھیں بند کر کے ان میں داخل ہو جائیں تب بھی انکی صداؤں سے آپ پہچان جائینگے کہ آپ کس شہر میں ہیں‘ آنکھیں کھول کر دیکھیں تو اس کی روشنیاں اسکے نام کی مالاجپتی ہوں گی...اسی طور شہر لاہور کی آوازیں‘ صدائیں‘ سرگوشیاں اور روشنیاں بھی الگ اور منفرد ہیں....جیسے نجیب محفوظ کے ناولوں میں صرف اور صرف قدیم قاہرہ محفوظ ہے‘ فیوڈور دوستووسکی اپنے سینٹ پیٹرز برگ کے قصیدے گاتا ہے‘ البرٹوموراویا‘ روم کے گیت الاپتا ہے‘گارسیا اپنے غرناطہ کو شاعری میں لازوال کرتا ہے... تو اسی طور...ان ادبی سربلندیوں کے نقارخانے میں‘ میرے ایسا ایک طوطی بھی ہے جس کی پکار کوئی نہیں سنتا اور پھر بھی میں کُوکتا چلا جاتا ہوں اور میری ہرکُوک میں بھی میرا شہر لاہور ہے...میں نے ایک زمانے میں تقریباً سوکے لگ بھگ جو ٹیلی ویژن ڈرامے لکھے ان میں سے بیشترکا پس منظر پرانا لاہور ہے...”سورج کیساتھ ساتھ  ڈرامہ سیریل میں 1930ء کے لاہور کی ڈرامائی تصویر کشی کی گئی...”ہزاروں راستے“ میں بھی لاہور کا اندرون جلوہ گر تھا جب کہ سیریل”فریب“ میں بھی لاہور کی پرانی گلیاں اور حویلیاں تھیں جن میں فلم سٹار رانی نے مرکزی کردار ادا کیا...میرے تقریباً سبھی ناولوں کے کردار لاہور میں سانس لیتے تھے ”راکھ“ اور”اے غزال شب“ میں بھی لاہور‘ لاہور ہے...اور یہ مقولہ کیسے جنم میں آیا...بقول مجید شیخ پہلی جنگ عظیم کے دوران انگریزوں کیلئے جنگ کرنے والی ایک لاہوری پلٹن تھی جس میں سب کے سب لاہوری سپاہی تھے...بیلجیئم کے میدان جنگ میں انگریزوں نے انہیں موت کے منہ میں جھونک دیا اور جب وہ دشمن پر حملہ آور ہوتے تھے تو نعرہ زن ہوتے تھے کہ...موت‘ موت ہے اور لاہور‘ لاہور ہے...
 تو کچھ تذکرہ شہروں کے شہر لاہور کی آوازوں اورصداؤں کا ہو جائے... میں ان زمانوں میں دوسری یا تیسری جماعت کا طالب علم بچہ تھا اور اندرون شہر رنگ محل مشن ہائی سکول میں پڑھتا تھا 
جہاں ہر سویر ہم”لب پہ آتی ہے دعا بن کہ تمنا میری“ کے بعد ایک ٹیچر کا وعظ سنتے تھے...چیمبر لین روڈ پرو اقع احاطہ قادر بخش کی قربت میں ہمارا جو مکان تھا‘ وہاں سے رنگ محل مشن ہائی سکول تک جانے کے دو راستے تھے...ایک تو کرشنا گلی میں سے برآمد ہو کر بانساں والے بازار کے راستے شاہ عالمی گیٹ کے اندر جاتا تھا‘ میں اپنا بستہ سنبھالے اکثر یہی راستہ اختیار کرتا‘ موچی دروازے کے اندر داخل ہو کر جب بائیں جانب مڑتا تو کانوں میں ایک دھمک گونجنے لگتی...دھم دھم...ایک عجب دھم دھم کی گونج... یہ ورق کوبوں کا بازار تھا...“ اس منتخب اقتباس کا حاصل مطالعہ منصف کا قوت مشاہدہ ہے جس نے ایک مخصوص علاقے یا مقام کی آوازوں کو بھی الگ سے شناخت دے دی ہے اور غور کیا جائے توکسی بھی علاقے میں داخل ہوتے وقت یقینا وہاں پر اگر آنکھوں کو کچھ مناظر اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں تو ساتھ ہی کانوں میں آوازیں بھی اپنا تاثر چھوڑتی ہیں۔