ڈاکٹر صفدر محمود کی کتاب ”بصیرت“ سے اقتباس حاضر ہے،جس میں مطالعے کی اہمیت کا تذکرہ ہے، مصنف لکھتے ہیں کہ ”کبھی کبھی یوں لگتا ہے جیسے ذہن خالی ہے چنانچہ طبع آزمائی کرنے کیلئے کوئی خاص موضوع بھی نہیں سوجھتا۔ ایسے میں احساس ہوتا ہے کہ ہفتے میں تین چار کالم لکھنا خاصا مشکل کام ہے اس طرح کی صورتحال میں مجھے اپنے مرحوم استاد پروفیسر مرزا محمد منور یاد آتے ہیں جو مطالعے پر زور دیتے ہوئے مجھے کہا کرتے تھے۔بیٹا جی مطالعہ کرو۔ مطالعہ وسیع کرو۔ جو پڑھنے کو جی چاہئے وہ پڑھو۔ ذہن میں کچھ جائے گا تو باہر نکلے گا۔ بیج بوئے بغیر فصل نہیں اُگتی‘ آخر انسان پڑھے بغیر کب تک اچھی اور معیاری تحریر لکھ سکتا ہے جو لوگ مطالعے کی عادت ترک کر دیتے ہیں‘ان کی تحریریں خودبتاتی ہیں کہ وہ خالی ڈھول کی مانند بج رہی ہیں‘ اندر سے خالی اور باہر سے سطحی۔میں اس دور کی بات کر رہا ہوں جب کتاب انسان کی بہترین دوست اور قیمتی ترین اثاثہ تصورہوتی تھی‘ ٹی وی تھا اور نہ ہی اخبارات اتنے موٹے ہوتے تھے کہ ان کے دامن کالموں اور مضامین سے بھرے پڑے ہوں‘ راتیں پر سکون اور شامیں ٹھنڈی ہوتی تھیں مجموعی طور پر زندگی منظم پر امن اور معمولات کے مطابق گزرتی تھی‘ تفریح کا سامان کبھی کبھی اچھی فلم دیکھنا دوستوں سے گپ شپ کھیل اور مہینے میں ایک دو بار کسی حلقہ ارباب ذوق میں شرکت تک محدود تھا آج واپس مڑ کر دیکھتا ہوں تو احساس ہوتا ہے کہ دوستوں کی محفلیں اور حلقوں کی یاترا بھی علم اور معلومات میں اضافہ کا ذریعہ بنتی تھی دوستوں کی محفلوں میں نئی کتابوں اور شاہکار تحریروں کا ذکر ہوتا تھا تو ادبی حلقوں کی نوک جھونک ادیبوں
کے اندر جھانکنے کا موقع فراہم کرتی تھی‘ فلمیں بھی بامقصد ہوتی تھیں مختصر یہ کہ سارے ماحول پر تخلیق کی گہری چھاپ تھی‘ تحریر سے لے کر تقریر سے ہوتے ہوئے فلموں تک سب کچھ تخلیقی عمل کا حصہ تھا اور کم سے کم لا ہور میں یوں لگتا تھا جیسے ہر طرف تخلیق کے دریا بلکہ سمندر بہہ رہا ہے سائنس کے اساتذہ اور طلبہ کو بھی شعریاد ہوتے تھے اور بعض سائنس کے مستند اساتذہ‘ لندن سے پی ایچ ڈی‘حافظ شیرازی اور اقبال کے کلام کو یوں پڑھتے تھے جیسے انہیں ازبر ہو اور جیسے وہ اردو فارسی کے استاد ہوں مطلب یہ کہ ہمارا دور یا زمانہ اس طرح کی سپیشلائزیشن یا مہارت کا نہیں تھا کہ کمپیوٹر سائنس کا طالب علم اقبال کا ایک بھی شعر نہ سنا سکے‘ اس نے زندگی میں کبھی کوئی افسانہ نہ پڑھا ہو اور میڈیکل کا سٹوڈنٹ ملک کے ممتاز لکھاریوں کے ناموں سے غیر آشنا ہو یہ اپنے اپنے شعبوں کے ڈبوں میں بند علم یا محدود نظر اور محدود ذہن کاسلسلہ ہمارے بعد کی پیداوار ہے جسے آپ سپیشلائزیشن کہتے ہیں ایک مثال آپ کے سامنے ہے محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہمارے مایہ نازسائنسدان اور قیمتی اثاثہ ہیں‘ سائنس اور ایٹم بم ان کی شہرت ہے لیکن وہ اقبال سے لے کر حافظ رومی تک سبھی کے کلام سے استفادہ کر چکے ہیں معتبر حوالے اپنی تحریروں میں اسی طرح دیتے ہیں جیسے عربی‘فارسی اردو کے اساتذہ دیتے ہیں۔اس اقتباس کا حاصل مطالعہ یہ ہے کہ معاشرے میں مطالعہ کرنے کی عادت مفقود ہونے لگی ہے جس سے وسیع النظری کی بھی کمی ہونے لگی ہے اور باتوں میں وہ گہرائی نظر نہیں آتی جو مطالعہ کرنے سے ہی آتی ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ مطالعہ جہاں ذہنی وسعت اور طمانیت کا باعث بنتا ہے وہاں اس سے شخصیت میں گہرائی بھی پیدا ہوتی ہے اور مطالعہ وہ صفت ہے جو کسی بھی انسان کی باتوں میں اثر لانے کا باعث بنتی ہے اس لئے کتابوں سے دوستی کسی بھی انسان کے لئے بہترین دوستی ہے۔ جس سے استفادہ ضروری ہے۔