(روزنامہ آج میں شائع ہونے والے کالم جو اپنی اشاعت پر قارئین نے بے حد پسند کئے، ان صدا بہار کالموں سے انتخاب کا سلسلہ قارئین کی دلچسپی کے لئے شروع کیا گیا ہے‘ ان کالموں میں اعدادوشمار اور حالات کالم کی تحریر کے وقت کی عکاسی کرتے ہیں)..... عالمی ادارہ صحت کا اس سال کا نعرہ ہے ’صحت سب کیلئے۔ ہر وقت اور ہر جگہ‘پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کیلئے اس نعرے کی تکمیل ایک بہت بڑا چیلنج ہے ہم جس معاشرے کا حصہ ہیں اس میں 95 فیصد افراد کو پینے کا صاف پانی ہی مہیا نہیں‘ جہاں ملک عزیز کی حدود میں بھوک سے بلکتے بچے مر جاتے ہوں‘ جہاں مائیں اپنی تخلیق کو دیکھنے سے پہلے ہی دنیا سے رخصت ہوجاتی ہوں اور جہاں نوزائیدہ بچوں کی شرح اموات پوری دنیا میں سب سے زیادہ ہو‘ کیا اس معاشرے کو صحت کے اس نعرے کو سب سے پہلے ترجیح نہیں بنانا چاہئے؟مجھے اس بات سے انکار نہیں کہ ہمارے ہاں بے شمار بڑے بڑے ہسپتال موجود ہیں جن میں دست اور الٹیوں سے لیکر کینسر جیسے موذی مرض کے ماہرین کام کررہے ہیں‘ہم نے کبھی سوچا کہ ہم ان بیماریوں پر قومی میزانیے کا کتنا بڑا حصہ خرچ کررہے ہیں مگر ان میں سے 75فیصد بیماریاں ایسی ہیں جنہیں آنے سے پہلے ہی روکا جاسکتا ہے‘ ہمارے ہاں سب سے زیادہ زور اور شور ہسپتالوں اور ڈاکٹرز کی کارکردگی کے حوالے سے برپا رہتا ہے حالانکہ جس طرح سیاست کی سنجیدگی کا تقاضا ہے کہ اسے صرف سیاستدانوں تک ہی محدود نہ رکھاجائے‘ویسے ہی فراہمی صحت کیلئے صرف ڈاکٹرز اور حکومت پر اعتماد غیر سنجیدہ طرز عمل کا عکاس ہوگا‘ شعبہ صحت کاایک بڑا حصہ Preventive میڈیسن ہے جس سے متعلق شعور اجاگر کرنا نہ صرف ریاستوں کا کام ہے بلکہ اس کیلئے بلاتفریق پیشہ ایک استاد سے لیکر اعلیٰ ترین وزارتوں پر براجمان افراد قوم اپنا اپنا کردارادا کرسکتے ہیں۔ہمارے ہاں کے بلدیاتی ادارے فراہمی صحت کیلئے کسی بھی ذمہ داری کو قبول کرنے سے گریزاں رہے ہیں حالانکہ فراہمی ونکاسی آب‘ گلی کوچوں کو صاف ستھرا رکھنا‘ماحولیات کو کثافتوں سے پاک کرنا‘ راستوں کو ٹریفک کے بے پناہ اژدہام سے بچانا‘ خوراک میں ضررر سانی سے اپنی نسل نو کا تحفظ اور زراعتی عمل کو کیڑے مار دواؤں کے اثرات بد سے محفوظ کرنا‘ یہ یقینا کسی نہ کسی ادارے کے توکام ہیں ناں! اس حوالے سے جو منفی صورتحال ہمیں بحیثیت مجموعی اپنی معاشرت میں دکھائی دیتی ہے اس کے متعلق کب اور کون سوچے گا؟ ہمارے ہاں کی حکومتیں اپنے بجٹ کا ایک فیصد بھی شعبہ صحت پر خرچ نہیں کرتیں اسی لئے ہمارے ہاں کے پرائیویٹ ادارے نہ صرف پھل پھول رہے ہیں بلکہ علاج کے ضمن میں انہوں نے ایک بہت بڑا بوجھ سنبھالا ہوا ہے۔ہمیں اپنے ملک کی شہری آبادی کیساتھ ساتھ دور افتادہ علاقوں میں رہنے والی آبادی اور انسانوں کی بھی فکر کرنا ہوگی‘ہمارے مراکز صحت میں کام کرنیوالی افرادی قوت چھٹیوں کی دلدادہ ہے اور انہیں کسی بھی مرض میں دوائی دینے کی تو شاید تربیت دی گئی مگر حسن اخلاق سے عاری یہ چہرے تسلی کے دو بول بولنے سے بھی قاصر رہتے ہیں، اسی لئے ہمارے مریض تسلی میں گندھی ہوئی دوائی کے کام کرنے کو آج بھی ترستے ہیں۔آیئے! ذرا ماضی کی طرف پلٹتے ہیں‘ہمارے دیہی علاقوں کی وسعتوں کو تو چھوڑیئے شہری علاقوں میں بھی باغات اور پارک موجود ہوتے تھے تاکہ وہاں ہمارے بچے اور بڑے ورزش کرسکیں‘ہمارے گھروں میں دیسی مرغیاں اور انڈے لذت دہن کا سامان تھے‘ ہمارے گھروں میں بغیر چھنے ہوئے آٹے کی دیسی گھی میں پکائی روٹیاں دور سے ہی اشتہا کو زیادہ کرنے کا باعث تھیں‘ کبڈی ہی سہی کیونکہ غریبوں کو اس کیلئے کوئی سامان کھیل نہ خریدنا پڑتا کہ ایک ٹھیکری اٹھائی‘ دھرتی پر لکیر کھینچی اور موجود نوجوانوں میں سے دو ٹیمیں بن کر اپنی ورزش کا سامان کرنے لگیں‘ مادیت پرستانہ دور میں فطرت سے یہ دوری ہمیں ذہنی وجسمانی امراض میں مبتلا کررہی ہے اور ہم انتہائی بے خوفی سے برگر ہویا شوارما‘پیزا ہو یا نوڈلز‘ اپنی نئی نسل کو تقلید مغرب میں تباہ ہوتے دیکھ رہے ہیں‘ ہر معاشرے کی اپنی ضروریات ہوتی ہیں‘ہم مغرب کی خوراک تو اپنے ہاں لے آئے مگر ان کے حفظان صحت کے اصولوں پر عمل‘ فراہمی تعلیم کے بہترین نظام سے غفلت اور اس حوالے سے ریاستی عملداری سے آج بھی مجتنب ہیں‘ جنوبی ایشیاء کے ممالک میں بالعموم اور پاکستان میں بالخصوص ایسی نسل پروان چڑھ رہی ہے جو ان عادات کی وجہ سے موٹاپے کا شکار ہے اور موٹاپا اُم الامراض ہے لہٰذا بلڈپریشر‘ شوگر اور فالج ہر آنیوالے دن کم عمر نوجوانوں کو شکار کررہے ہیں‘ شہید پاکستان جناب حکیم محمد سعیدؒ نے کہا تھا”ایک ناشتہ، ایک کھانا“یہ زندگی کا ایسا نصب العین ہے کہ جس نے اس کو اپنایا اس نے صحت کو بنایا‘ریاست کے تمام شہریوں کیلئے فراہمی صحت کو ممکن بنانا‘ چاہے وہ کہیں بھی ہوں ہمیں اس کیلئے تگ ودو کرنا ہوگی اور شعبہ تعلیم‘ صحت‘ منصوبہ بندی اور خزانے کے شعبوں پر مشتمل ایک ٹیم ورک کو بنیاد بنانا ہوگا‘فراہمی تعلیم وشعور جب تک درکار ضرورت کے مطابق نہ ہوگی ادراک صحت کبھی بھی حاصل نہیں ہوسکتا‘جب تک ریاستیں تعلیم اور صحت کے شعبوں کو کمانے کی بجائے لگانے کا ذریعہ نہیں بنائیں گی تب تک پاکستان ایک غیر تعلیم یافتہ اور لاغر قوم رہے گی آیئے ادارۂ ہمدرد کی جانب سے اقوام متحدہ کے اس نعرے پرلبیک کہیں ”صحت سب کیلئے۔ ہر وقت اور ہر جگہ“۔صحت سب کیلئے‘ ہر وقت اور ہر جگہ (روزنامہ آج میں شائع ہونے والے کالم جو اپنی اشاعت پر قارئین نے بے حد پسند کئے، ان صدا بہار کالموں سے انتخاب کا سلسلہ قارئین کی دلچسپی کے لئے شروع کیا گیا ہے‘ ان کالموں میں اعدادوشمار اور حالات کالم کی تحریر کے وقت کی عکاسی کرتے ہیں)..... عالمی ادارہ صحت کا اس سال کا نعرہ ہے ’صحت سب کیلئے۔ ہر وقت اور ہر جگہ‘پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کیلئے اس نعرے کی تکمیل ایک بہت بڑا چیلنج ہے ہم جس معاشرے کا حصہ ہیں اس میں 95 فیصد افراد کو پینے کا صاف پانی ہی مہیا نہیں‘ جہاں ملک عزیز کی حدود میں بھوک سے بلکتے بچے مر جاتے ہوں‘ جہاں مائیں اپنی تخلیق کو دیکھنے سے پہلے ہی دنیا سے رخصت ہوجاتی ہوں اور جہاں نوزائیدہ بچوں کی شرح اموات پوری دنیا میں سب سے زیادہ ہو‘ کیا اس معاشرے کو صحت کے اس نعرے کو سب سے پہلے ترجیح نہیں بنانا چاہئے؟مجھے اس بات سے انکار نہیں کہ ہمارے ہاں بے شمار بڑے بڑے ہسپتال موجود ہیں جن میں دست اور الٹیوں سے لیکر کینسر جیسے موذی مرض کے ماہرین کام کررہے ہیں‘ہم نے کبھی سوچا کہ ہم ان بیماریوں پر قومی میزانیے کا کتنا بڑا حصہ خرچ کررہے ہیں مگر ان میں سے 75فیصد بیماریاں ایسی ہیں جنہیں آنے سے پہلے ہی روکا جاسکتا ہے‘ ہمارے ہاں سب سے زیادہ زور اور شور ہسپتالوں اور ڈاکٹرز کی کارکردگی کے حوالے سے برپا رہتا ہے حالانکہ جس طرح سیاست کی سنجیدگی کا تقاضا ہے کہ اسے صرف سیاستدانوں تک ہی محدود نہ رکھاجائے‘ویسے ہی فراہمی صحت کیلئے صرف ڈاکٹرز اور حکومت پر اعتماد غیر سنجیدہ طرز عمل کا عکاس ہوگا‘ شعبہ صحت کاایک بڑا حصہ Preventive میڈیسن ہے جس سے متعلق شعور اجاگر کرنا نہ صرف ریاستوں کا کام ہے بلکہ اس کیلئے بلاتفریق پیشہ ایک استاد سے لیکر اعلیٰ ترین وزارتوں پر براجمان افراد قوم اپنا اپنا کردارادا کرسکتے ہیں۔ہمارے ہاں کے بلدیاتی ادارے فراہمی صحت کیلئے کسی بھی ذمہ داری کو قبول کرنے سے گریزاں رہے ہیں حالانکہ فراہمی ونکاسی آب‘ گلی کوچوں کو صاف ستھرا رکھنا‘ماحولیات کو کثافتوں سے پاک کرنا‘ راستوں کو ٹریفک کے بے پناہ اژدہام سے بچانا‘ خوراک میں ضررر سانی سے اپنی نسل نو کا تحفظ اور زراعتی عمل کو کیڑے مار دواؤں کے اثرات بد سے محفوظ کرنا‘ یہ یقینا کسی نہ کسی ادارے کے توکام ہیں ناں! اس حوالے سے جو منفی صورتحال ہمیں بحیثیت مجموعی اپنی معاشرت میں دکھائی دیتی ہے اس کے متعلق کب اور کون سوچے گا؟ ہمارے ہاں کی حکومتیں اپنے بجٹ کا ایک فیصد بھی شعبہ صحت پر خرچ نہیں کرتیں اسی لئے ہمارے ہاں کے پرائیویٹ ادارے نہ صرف پھل پھول رہے ہیں بلکہ علاج کے ضمن میں انہوں نے ایک بہت بڑا بوجھ سنبھالا ہوا ہے۔ہمیں اپنے ملک کی شہری آبادی کیساتھ ساتھ دور افتادہ علاقوں میں رہنے والی آبادی اور انسانوں کی بھی فکر کرنا ہوگی‘ہمارے مراکز صحت میں کام کرنیوالی افرادی قوت چھٹیوں کی دلدادہ ہے اور انہیں کسی بھی مرض میں دوائی دینے کی تو شاید تربیت دی گئی مگر حسن اخلاق سے عاری یہ چہرے تسلی کے دو بول بولنے سے بھی قاصر رہتے ہیں، اسی لئے ہمارے مریض تسلی میں گندھی ہوئی دوائی کے کام کرنے کو آج بھی ترستے ہیں۔آیئے! ذرا ماضی کی طرف پلٹتے ہیں‘ہمارے دیہی علاقوں کی وسعتوں کو تو چھوڑیئے شہری علاقوں میں بھی باغات اور پارک موجود ہوتے تھے تاکہ وہاں ہمارے بچے اور بڑے ورزش کرسکیں‘ہمارے گھروں میں دیسی مرغیاں اور انڈے لذت دہن کا سامان تھے‘ ہمارے گھروں میں بغیر چھنے ہوئے آٹے کی دیسی گھی میں پکائی روٹیاں دور سے ہی اشتہا کو زیادہ کرنے کا باعث تھیں‘ کبڈی ہی سہی کیونکہ غریبوں کو اس کیلئے کوئی سامان کھیل نہ خریدنا پڑتا کہ ایک ٹھیکری اٹھائی‘ دھرتی پر لکیر کھینچی اور موجود نوجوانوں میں سے دو ٹیمیں بن کر اپنی ورزش کا سامان کرنے لگیں‘ مادیت پرستانہ دور میں فطرت سے یہ دوری ہمیں ذہنی وجسمانی امراض میں مبتلا کررہی ہے اور ہم انتہائی بے خوفی سے برگر ہویا شوارما‘پیزا ہو یا نوڈلز‘ اپنی نئی نسل کو تقلید مغرب میں تباہ ہوتے دیکھ رہے ہیں‘ ہر معاشرے کی اپنی ضروریات ہوتی ہیں‘ہم مغرب کی خوراک تو اپنے ہاں لے آئے مگر ان کے حفظان صحت کے اصولوں پر عمل‘ فراہمی تعلیم کے بہترین نظام سے غفلت اور اس حوالے سے ریاستی عملداری سے آج بھی مجتنب ہیں‘ جنوبی ایشیاء کے ممالک میں بالعموم اور پاکستان میں بالخصوص ایسی نسل پروان چڑھ رہی ہے جو ان عادات کی وجہ سے موٹاپے کا شکار ہے اور موٹاپا اُم الامراض ہے لہٰذا بلڈپریشر‘ شوگر اور فالج ہر آنیوالے دن کم عمر نوجوانوں کو شکار کررہے ہیں‘ شہید پاکستان جناب حکیم محمد سعیدؒ نے کہا تھا”ایک ناشتہ، ایک کھانا“یہ زندگی کا ایسا نصب العین ہے کہ جس نے اس کو اپنایا اس نے صحت کو بنایا‘ریاست کے تمام شہریوں کیلئے فراہمی صحت کو ممکن بنانا‘ چاہے وہ کہیں بھی ہوں ہمیں اس کیلئے تگ ودو کرنا ہوگی اور شعبہ تعلیم‘ صحت‘ منصوبہ بندی اور خزانے کے شعبوں پر مشتمل ایک ٹیم ورک کو بنیاد بنانا ہوگا‘فراہمی تعلیم وشعور جب تک درکار ضرورت کے مطابق نہ ہوگی ادراک صحت کبھی بھی حاصل نہیں ہوسکتا‘جب تک ریاستیں تعلیم اور صحت کے شعبوں کو کمانے کی بجائے لگانے کا ذریعہ نہیں بنائیں گی تب تک پاکستان ایک غیر تعلیم یافتہ اور لاغر قوم رہے گی آیئے ادارۂ ہمدرد کی جانب سے اقوام متحدہ کے اس نعرے پرلبیک کہیں ”صحت سب کیلئے۔ ہر وقت اور ہر جگہ“۔