ملک میں یکساں نظام تعلیم اور بنیادی تعلیم کو مادری زبان میں رائج کرنے کے لئے کئی طرح کی تحاریک چلائی گئیں مگر نتیجہ تاحال صفر ہی ہمارے سامنے ہے حالانکہ یہ مطالبہ انسانی فطرت اور اقوام متحدہ کے دیئے گئے واضح میکانیزم اور کنونشنز کے عین مطابق ہے پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کو گزشتہ چند سال کے دوران جن مسائل و نقصانات کا سامنا کرناپڑا وہ ملکی تاریخ کا ایک بڑا المیہ قرار دیا جا سکتا ہے‘ اس کی وجوہات میں سے دو سب سے بڑی اور واضح ہیں پہلی وجہ تو یہ سامنے آتی ہے کہ ملک میں روپے کی قدر کی حد درجہ گراوٹ اور اس کے نتیجے میں سو فیصد سے بھی کہیں زیادہ مہنگائی کے باوجود تعلیمی بجٹ کو اضافے کی بجائے تقریباً نصف کر دیا گیا جبکہ دوسری بڑی وجہ وہ تجربات ہیں جو اصلاحات اور تعلیمی ایمر جنسی کے نام پر کئے گئے جن کے سبب تعلیمی ادارے بالخصوص جامعات اپاہج ہو کر رہ گئی ہیں یہ حقیقت ڈھکی چھپی نہیں کہ تقریباً پانچ سال قبل ملک بھر کی یونیورسٹیوں یا اعلیٰ تعلیم کا سالانہ بجٹ کم از کم 80 ارب روپے تھا جسے ملک میں اقتدار کی تبدیلی کے پہلے سال یعنی پہلے بجٹ میں گھٹا کر نصف کر دیا گیا جبکہ بعد ازاں تھوڑا
تھوڑا اضافہ کرکے 64 ارب روپے تک پہنچا دیا گیا اب المیہ یہ ہے کہ اقتدار کی مرکزی سطح پر تبدیلی کے بعد بھی جامعات کا بجٹ وہی رہا جو اس سے پہلے تھا جامعات کی مالی مشکلات کی سب سے بڑی وجوہات دوہیں ایک تو ہر سال تنخواہوں الاؤنسز اور پنشن میں ہونے والے اضافے کی ادائیگی کے لئے جامعات کا حکومتی گرانٹ سے محروم رہنا جبکہ دوسری وجہ تقریباً دو سال تک کورونا وباء کے دوران یونیورسٹیوں کی بندش کے سبب ان کے اپنے ذرائع آمدن کا مفلوج ہونا ہے جس کے ازالے کے لئے حکومت کی طرف سے کوئی پیکج نہیں دیا گیا یہاں تک کہ آن لائن کلاسز کے دوران طلباء بھی انٹرنیٹ اور سمارٹ فون کے استعمال میں حکومتی امداد سے محروم رہے موجودہ ابتر حالات میں جامعات کو تالہ بندی سے بچانے کے لئے اگر کوئی چارہ یا ذریعہ باقی نظر آ رہا ہے تو وہ فیسوں اور مختلف چارجز میں اضافہ ہی ہے جو کہ شدید ترین مہنگائی کے ستائے ہوئے عوام اور طلباء کے لئے کسی طرح بھی قابل قبول نہیں جبکہ ہونا بھی نہیں چاہئے کیونکہ اگر تعلیم ریاست کے ذمے عوام کا ایک بنیادی حق ہو تو پھر خود احتسابی نہ سہی بلکہ احتساب کے ذریعے اس بات کو طے کرنا ہو گا کہ ریاست یہ ذمہ داری کس حد تک پوری کر رہی ہے؟ المیہ یہ ہے کہ ملک میں انسانی حقوق کی پاسداری‘ میانہ روی‘ مذہبی ہم آہنگی انتہا پسندی اور دہشت گردی سے پاک معاشرے جبکہ ہر ذی روح کے لئے ایک موافق ماحول کے قیام کی غرض سے کئی طرح کی مہمات چل رہی ہیں لیکن سب سے بڑی اور بنیادی مہم یعنی تعلیم و تربیت کو مسلسل نظر کیا جا رہا ہے جس کے منفی نتائج ہمارے سامنے ہیں۔ یہ تلخ حقیقت ذہن نشین کرنا وقت کا بنیادی تقاضا تو کیا بلکہ ہمارا قومی
نصب العین ہونا چاہئے کہ ہمارے آگے بڑھنے اور اقوام عالم کی صف میں اپنے لئے کوئی جگہ کوئی مقام بنانے کا اگر کوئی طریقہ کوئی راستہ اور کوئی لائحہ عمل کارگر ثابت ہو سکتا ہے تو محض تعلیمی پیش رفت ہے ورنہ ہمارا کوئی مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ تعلیمی اداروں میں نت نئے تجربات سے باز رہنا مسلط کئے گئے قواعد و ضوابط پر سٹیک ہولڈرز یعنی جامعات کی مشاورت اور تائید سے نظر ثانی تنخواہوں الاؤنسز اور پنشن میں ہونے والے اضافے کو قومی بجٹ میں باقاعدہ طور پر شامل کرکے جامعات کے لئے اس کی ادائیگی‘ پنشن کے لئے انڈومنٹ فنڈ کے قیام کے لئے جامعات کو گرانٹ کی فراہمی جبکہ نئی جامعات بلکہ کرایہ کی عمارتوں میں کیمپسز قائم کرنے کی دوڑ ترک کرکے پرانی جامعات کو مزید مفلوج ہونے سے بچانا جامعات کے بنیادی مطالبات میں سے ہے‘ مانا کہ جامعہ پشاور اوربعض دوسری یونیورسٹیاں اپنی آمدنی بڑھانے کی کوششوں میں طلباء کی تعداد بڑھانے کا سوچ رہی ہیں بلکہ پشاور یونیورسٹی میں تو عملدرآمد کا آغاز بھی ہو چکا ہے مگر سوال یہ ہے کہ طلباء کو سنبھالنے اور انہیں ایک بہتر تعلیمی ماحول کی فراہمی کا کیا بنے گا؟