قدیم درسگاہ میں شیخ تیمور نیواکیڈمک بلاک کے میگا پراجیکٹ کی تکمیل کے بعد دوسرے متعدد ترقیاتی منصوبے بھی مکمل کر لئے گئے ہیں جن میں انسٹیٹیوٹ آف کریمنالوجی سائنسز اور اینکوپیشن سنٹر جبکہ اس سے قبل انسٹیٹیوٹ آف پیس اینڈکنفلیکٹ سٹڈیز قابل ذکر ہیں پیس انسٹیٹیوٹ کا افتتاح کس نے کیا؟ یہ مجھے یاد نہیں البتہ یہ ادارہ ڈاکٹر ایم رسول جان کے دور میں قائم ہوا جبکہ سنگ بنیادجنرل(ر) ممتاز گل نے رکھا تھا اور تکمیل کے مراحل میں انسٹیٹیوٹ کے فیکلٹی ممبر ڈاکٹر جمیل چترالی نے کلیدی کردار ادا کیا وہ ایک عرصہ تک سربراہ بھی رہے مگر بعد ازاں وہاں سے تبادلے کے بعد ایک بار پھر انسٹی ٹیوٹ کا حصہ بن گئے ہیں افتتاح یا افتتاح جات کے حوالے سے انسٹیٹیوٹ آف کریمینالوجی سائنسز اور اینکو بیشن سنٹر نے ہیٹ ٹرک مکمل کرکے ایک طرح کی تاریخ رقم کر دی ہے۔ گزشتہ روز وزیراعلیٰ نے دوسری چھوٹی چھوٹی سکیموں کے افتتاح کیساتھ ساتھ اس پر اٹھنے والے اخراجات میں حکومتی حصے کا یقین بھی دلایا اور جامعہ پشاور سے ہوتے ہوئے زرعی یونیورسٹی
میں بھی ٹیکنالوجی ڈویلپمنٹ سنٹر پر وزیراعلیٰ کے نام کی تختی نصب ہوئی۔ یونیورسٹی میں رابطہ سڑکوں‘ فٹ پاتھوں اور پبلک ٹوائلٹس کی حکومت کی طرف سے تعمیر اور شجرکاری کا جو اعلان کیا گیا اس پر عمل درآمد کا ابھی انتظار ہے اور اسی کیفیت میں بعض جمہوریت پسند لوگ اسمبلی کے لئے درازئی عمر کی دعائیں بھی کر رہے ہیں البتہ اس موقع پر مجھے یہ بات ضرور آئی کہ پشاور ترقیاتی ادارے اور پشاور کی ترقی کے حکومتی پروگرام کو جب جمرود روڈ پر یونیورسٹی کے حکیم عبدالجلیل ندوی کالج یعنی پشاور یونیورسٹی کالج فار بوائز کے باہر سٹاپ بنانے اور سپین جماعت کے سامنے لیبارٹری روڈ پر سوزوکیوں اور رکشوں کے سٹینڈ اور ہتھ ریڑھی بازار کے ہاتھوں ٹریفک جام کے مسئلے سے نمٹنے کے لئے یونیورسٹی سے قطعہ اراضی ہتھیانے کی ضرورت پڑی تو ہتھیانے کے موقع پر پی ڈی اے حکام اور پشاور کے ترقی کے پروگرام کے انچارج ایم پی اے نے زمین کے عوض زمین کی فراہمی کیساتھ ساتھ یونیورسٹی کے اندر رابطہ سڑکوں اور فٹ پاتھوں کی تعمیر کا وعدہ بھی کیا تھا مگر عرصہ گزرنے کے باوجود ایفا نہ ہو سکا اور تو کیا یونیورسٹی کے مین گیٹ پر عرصہ سے سڑک میں جو دو کھڈے معماروں کی راہ تک رہے ہیں آج تک وہ بھی کسی کو اس کے باوجود نظر نہیں آئے کہ دن بھر یونیورسٹی میں داخل ہونیوالی گاڑیوں اور رکشوں کے جم غفیر میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں بہر کیف ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل اور عمارتوں کی نقاب کشائی کی ہیٹ ٹرک تو ظاہر ہے کہ یونیورسٹی کیمپس کی ابتر ہوتی ہوئی حالت میں کسی تبدیلی یعنی بہتری کاباعث نہیں بن سکتی بلکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ کیمپس کے مکینوں بالخصوص سنجیدہ حلقوں کی جانب سے کیمپس کی ابتری کے بارے میں جو آوازیں اٹھتی ہیں اس پر صوبائی
حکومت اور پولیس حکام کے دھیان دینے کی ضرورت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ماناکہ کیمپس میں پولیس لائن پولیس سٹیشن قائم اور سوڈیڑھ سو نفری اور افسران موجود ہونے کیساتھ ساتھ ابابیل فورس اور موبائل گاڑیاں گشت کرتے نظر آ رہی ہیں ساتھ ہی یونیورسٹی انتظامیہ اور سکیورٹی عملہ بھی تنخواہیں لے رہا ہے مگراس کے باوجود صفائی ستھرائی‘ شجر کاری‘ ٹریفک کا ایک قابل عمل منظم سسٹم اور اوباش سر پھروں کو ٹھکانے لگانے کے انتظام و انصرام کا کہیں نام و نشان نظر نہیں آ رہا‘ ریس سکریچنگ ون ویلنگ‘ پریشر ہارن ناقابل استعمال بے شمار رکشوں کے شور و غل اور دھوئیں پک اینڈ ڈراپ گاڑیوں کے اڈوں‘ مہاجر آوٹ سائیڈرلڑکوں کی پھرتیوں‘ بھکاریوں اور تہہ بازاری کی بہتات آوارہ کتوں کی بھر مار اور ٹک ٹاکر کی دیدہ دلیری نے یونیورسٹی کیمپس کے تعلیمی ماحول کو جس پراگندگی سے دو چار کر دیا ہے وہ انتظام و انصرام کے ذمہ داروں سے اوجھل ہے‘ ممکن ہے کہ انتظامیہ اس سے کہیں زیادہ ابتر حالت مسلط ہونے کی منتظر ہو ورنہ ڈنڈا اٹھا کر ہر ٹیڑھے کو سیدھا کر لیا گیا ہوتا۔