تعلیمی ابتری‘ قدرے قربانی چاہئے

سرکاری جامعات میں گزشتہ چند سالوں سے ہیجان خیزی اور اضطراب کا جو عالم طاری ہے اس کی بنیادی وجہ مالی ابتری ہے۔ یہ بات تو ہر حکومت نے دہرائی ہے کہ تعلیم ہی ترقی کی حقیقی بنیاد ہے اور تعلیم کے شعبے میں وسیع تر سرمایہ کاری کی ضرورت ہے مگر کیا کہئے کہ پہل آج تک کسی حکومت نے بھی نہیں کی۔ سالانہ بجٹ پیش کیا جاتا ہے‘ تنخواہوں‘ الاؤنسز اور پنشن میں قدرے اضافے بلکہ آٹے میں نمک کے برابر اضافے کا اعلان کیا جاتا ہے لیکن باعث حیرت امر یہ ہے کہ یہ اضافہ جامعات کیلئے نہیں ہوتا۔ سرکاری محکموں اور وفاقی اداروں کے ملازمین تو جلد یا بدیر اضافہ حاصل کر لیتے ہیں مگر یونیورسٹیوں کے ملازمین محروم رہ جاتے ہیں کیونکہ جامعات کی گرانٹ میں اضافے کی بجائے کٹوتی کی جاتی ہے۔ خیبر پختونخوا کی پرانی یونیورسٹیوں میں ایک آدھ کے علاوہ باقی ماندہ کے ملازمین تنخواہوں‘ پنشن اور مراعات یا الاؤنسز میں ہونے والے اضافے سے محروم چلے آ رہے ہیں۔ ان میں بعض تو ہڑتال اور تالہ بندی کا طریق اپنا لیتے ہیں۔ اور بعض میڈیا بیانات اور ڈیڈلائن وغیرہ پر اکتفاء کر لیتے ہیں ابھی حال ہی میں انجینئرنگ 
اور اسلامیہ کالج کے ملازمین نے ایک بار پھر دھرنا احتجاج آزمالیا مگر وہ جو چاہتے ہیں وہ نہیں ہو رہا کیونکہ جب یونیورسٹی کو گرانٹ کا حصول جوئے شیرلانے کے مترادف ہو جائے تو اضافہ جات اور بقایا جات کا بندوبست کیسے اور کہاں سے کریں گے؟ مانا کہ ملک میں امن وآشتی‘ یگانگت مذہبی ہم آہنگی جبکہ جمہوریت اور ترقی کی راہ سے انتہا پسندی اور دہشت گردی کی شکل میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کیلئے فروغ تعلیم واحد موثر ذریعہ کہلایا جاتا ہے لیکن اس حقیقت کو محض تقاریر اور تحایر میں تسلیم کہا جاتا ہے عملی طور پر کچھ بھی سامنے نہیں آتا یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں اتفاق ویگانگت باہمی احترام جمہوریت اور ترقی کی راہیں بدستور مسدود ہوتی جا رہی ہیں کیونکہ ملکی تاریخ میں پہلی بار تعلیم‘ تعلیمی نظام اور تعلیمی 
ادارے بدترین زبوں حالی کا سامنا کر رہے ہیں حقیقت تو یہ ہے کہ یہ بات اتنی مشکل اور انہونی نہیں کہ حکومتوں کی سمجھ سے بالاتر ہو کہ جب مہنگائی میں کئی گنا اضافہ ہو تو ایسے میں تعلیمی بجٹ کم ہوگا یا زیادہ؟ چند سال قبل تک اس کے باوجود کہ آج کے مقابلے میں مہنگائی کہیں کم تھی تعلیمی بجٹ سالانہ کم از کم 80 ارب روپے رکھا جاتا تھا جبکہ الٹی گنگا کے مصداق آج ملک کی لگ بھگ 200 یونیورسٹیوں کو محض 64 ارب پر ٹرخایا جارہا ہے۔ کہتے ہیں کہ یونیورسٹیاں اپنے ذرائع آمدن پیدا کریں کیسے پیدا کریں؟ کہاں سے پیدا کریں؟ فیسیں مزید بڑھائیں؟ امتحانات اور ہاسٹل کے واجبات میں اضافہ کریں؟ یعنی سیدھی سادی بات یہ ہوجائے گی کہ نادار اور متوسط طبقے پر حصول تعلیم کے دروازے بند کریں؟ اب یہ جو کچھ چل رہا ہے اس کا منطقی نتیجہ یہی برآمد ہوگا کہ جب قوم کا ایک بڑا حصہ یعنی غریب اور متوسط لوگ تعلیم سے یکسر محروم ہو جائیں۔ بلاشبہ امن ہر انسان بلکہ ہر ذری روح کی بنیادی ضرورت ہے لیکن سب سے زیادہ 
ضرورت ان خواص کی ہوتی ہے جو مال و متاع بینک بیلنس کے مالک ہیں اور ہمیشہ اقتدار میں رہتے ہیں لہٰذا ”مملکت خداداد“ کے ان گنے چند لوگوں کو اپنے تسلط‘ مفادات اور اقتدار کی بقاء کیلئے تعلیم پر توجہ دینا ہوگی یہ ضروری نہیں کہ بیرونی قرضوں کا ایک خاص حصہ تعلیم کیلئے مختص ہو بلکہ اس کیلئے دوسرے مختلف ذرائع کو بھی بروئے کار لایا جاسکتا ہے مثال کے طور پر اگر اراکین پارلیمان اور صوبائی اسمبلی محض الاؤنسز کو تعلیم کے لئے چھوڑ دیں تو یہ معمولی کٹوتی ان کی کمائی پر کسی طرح بھی اثرانداز نہیں ہوگی۔ اسی طرح گریڈ 20 اور اس سے اوپر کے افسران کی تنخواہوں اور مراعات سے ماہانہ محض ایک ہزار روپے گریڈ 17 سے 19 تک سے صرف پانچ سو روپے کٹوتی کیساتھ ساتھ محض دو روپے کے تعلیمی ٹکٹ کا اجراء کرکے اس طریق پر صرف پانچ سال تک عمل کیا جائے تو پھر دیکھنا کہ تعلیمی ابتری کے گرداب سے ملک کو نکالنے کی اس اجتماعی کوشش کا نتیجہ کیا نکل آتا ہے؟ یہ حقیقت ذہن نشین کرنا ہوگی کہ جب تک ہماری تعلیم اس موجودہ ابتر حالت سے نہیں نکلے گی تب تک امن استحکام جمہوریت اور ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا۔