جامعات میں ترقیوں سے محروم اساتذہ

جامعات میں ایسے اساتذہ کی کوئی کمی نہیں جوعرصہ سے ترقی سے محروم چلے آرہے ہیں ان میں اکثریت پی ایچ ڈی ہولڈرز اور وہ بھی زیادہ تر خواتین ہیں‘ ایسے محروم معلمین زیادہ تر قدیم درسگاہ پشاور یونیورسٹی میں پائے جاتے ہیں‘ یہ لوگ اپنے قانونی حق کے حصول میں لگے ہوئے ہیں۔کئی بار ٹیچرز کمیونٹی سنٹر میں بھی اکٹھے ہوگئے ہیں مگر مسئلہ تاحال جوں کا توں ہے جبکہ ساتھ ہی بیسک پے سکیل یعنی بی پی ایس سسٹم کے تحت کام کرنے والے اساتذہ نے بھی کروٹ بدل ڈالی اور وہ بھی کچھ اس قدر کہ اعلیٰ تعلیمی کمیشن اسلام آباد تک پہنچ گئے۔ ان دونوں حلقوں کامطالبہ اور احتجاج تقریباً ایک جیسا ہے پی ایچ ڈی اور نان پی ایچ ڈی اساتذہ جن کی تعداد وہ80سے زائد بتا رہے ہیں کہا جاتا ہے کہ ان میں ایسے ٹیچرز بھی ہیں جو عرصہ پندرہ سولہ سال سے ایک ہی گریڈ میں یعنی یا لیکچرار یا اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر کام کر رہے ہیں ان میں پی ایچ ڈی ہولڈرز قدرے زیادہ جذباتی واقع ہو رہے ہیں اور حق بجانب بھی ہیں مطلب جو ٹیچر اپنے سبجیکٹ میں ڈاکٹریٹ کرنے کے بعد بھی ایک عشرے تک یا اس سے بھی زیادہ وقت ترقی سے محروم ہو تو پھر پی ایچ ڈی کا تو میرے نزدیک یہ فائدہ سامنے آتا ہے کہ ماہانہ الاؤنس کیساتھ ساتھ ان کا مطالعہ اور علم بھی وسیع ہو جاتا ہے اور بس اسی طرح اسلام آباد کا احتجاجی یا ترہ یا سوار مارچ کرنے والے بی پی ایس اساتذہ بھی ترقی سے محرومی کارونا رو رہے ہیں۔ ان کا موقف بلکہ مطالبہ ہے کہ یونیورسٹیوں میں پروموشن کی پالیسی نہ ہونے سے وہ بے حد متاثر ہو رہے ہیں کہتے ہیں کہ فیکلٹی میں ترقیوں کو انٹرنل یا داخلی طور پر عمل میں لانا رائج کیا جائے یعنی آسامیوں کو مشتہر کرکے اس کے مقابلے میں باہر کے امیدواروں کو شامل کرنے کی اجازت نہ ہو اسی طرح دوسرے خدشات اور تحفظات بھی ہونگے۔ ویسے اساتذہ کی انجمن پیوٹا تو ہر سال ان مسائل کے حل کی کوششوں میں لگی رہتی ہے مگر مسائل وقت کیساتھ ساتھ بڑھ رہے ہیں۔معلوم نہیں کہ پیوٹا کے حالیہ انتخابی مہم کے دوران انتخابی امیدواروں نے ترقیوں سے محروم اساتذہ اور بی پی ایس اساتذہ کو کس حد تک یقین دہانیاں کرائی ہوں گی یا بہ الفاظ دیگر کون کونسے سبز باغ دکھائے ہونگے لیکن جو کچھ ظاہر ہے وہ یہ ہے کہ مسائل اب بھی اپنی جگہ برقرار ہیں درحقیقت اس صورتحال کی بنیادی وجہ مالی ابتری کی حالت ہے جو رفتہ رفتہ گھمبیر ہوتی جارہی ہے یونیورسٹیوں کے اپنے وسائل انتہائی محدود بلکہ بعض یونیورسٹیوں کے توسرے سے ہے بھی نہیں جبکہ حکومت کی طرف سے کٹ لگانے کی سیریز مکمل ہی نہیں ہورہی یہاں تک کہ گرانٹ کا وعدہ‘ گرانٹ کی منظوری اور فراہمی کے اعلان کے باوجود جامعات گرانٹ کیلئے صوبے اور مرکز دونوں جگہوں پر خوار ہورہی ہیں۔ بجٹ آتا ہے تنخواہوں اور مراعات یا الاؤنسز میں اضافے کے اعلانات کے بعد اسے پارلیمان اور صوبائی اسمبلی سے پاس بھی کئے جاتے ہیں مگر جامعات درمیان میں خالی ہاتھ رہ جاتی ہیں ایسے میں یونیورسٹی انتظامیہ اور ملازمین کے مابین ہمیشہ ٹکراؤ کی کیفیت رہتی ہے انتظامیہ کہتی ہے کہ حکومتی گرانٹ مل جائے تو ادائیگیاں کی جائیں گی جبکہ ملازمین کام کاج کو خیرباد کہہ کر یہ نعرے لگاتے تھکتے نہیں کہ گرانٹ کا حصول ہمارا کام نہیں بلکہ انتظامیہ کی ذمہ داری ہے جہاں تک انتظامیہ یعنی وائس چانسلر اور ٹریژرر کی ذمہ داریوں کا سوال ہے تو جہاں تک مجھے معلوم ہے تو یہ دونوں حضرات صوبے اور مرکز میں ایوانوں اور دفاتر کے چکر کاٹتے کاٹتے عاجز آجاتے ہیں مگر کچھ ہاتھ نہیں آتا کہتے ہیں کہ عادت بری بلا ہے۔ ملازمین حضرات کا خیا ل ہے کہ وہ ابتداء ہی سے جو معاوضہ لیتے رہے اس میں کسی قسم کی کٹوتی قابل قبول نہیں جبکہ تاخیر بھی برداشت نہیں کی جا سکتی۔ دوسری جانب انتظامیہ ہے جو کہ خود بھی ملازمین ہیں یعنی مالی ابتری کے اثرات سے وہ بھی محفوظ نہیں رہ سکتے اب اگر وہ کچھ کرنا چاہیں بھی تو کیا کریں؟ حکومت کی طرف سے تعلیمی بجٹ جب تسلسل سے گھٹتا جارہا ہے اور گرانٹ وعدوں اور اعلانات کے باوجود نہیں دیتی تو ایسے میں تو وائس چانسلر کیلئے دو ہی راستے رہ جاتے ہیں کہ یا تو ملازمین کے گووی سی گو کے نعرے سنتے رہیں گے یا پھر اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوشی ہی میں اپنی عافیت سمجھیں گے۔