بعض لوگوں کے بقول یونیورسٹی کیمپس جائنٹ فیملی یا مشترکہ خاندانی سسٹم کی مانند ہے مگر یہ بات1980 سے قبل کے دور کے بارے میں درست مانی جا سکتی ہے یعنی اس وقت تو جائنٹ فیملی کی حالت کچھ یوں ہے کہ انتظام و انصرام کا تمام تر بوجھ مادر علمی کی کندھوں پر پڑا ہوا ہے یہ مشترکہ خاندان جب حصے بخرے ہو گیا اور ایک گھر میں کئی گھر کھڑے کر دیئے گئے تو ساتھ ہی نفسا نفسی کے عالم کو تقویت ملی اور خانذانی گھر یا جائنٹ فیملی کو سنبھالنے کی بجائے بزرگوں کے گھر سے الگ ہونے والے ہر ایک گھرکو محض اپنی فکر ستانے لگی بعد ازاں جب صوبے میں نئی جامعات کی رفتار تیز ہو کر تقریباً عشرے ڈیڑھ عشرے کے دوران درجن سے زائد ہو گئیں اور جامعہ پشاور محض کیمپس کے روڈ نمبر2 تک محدود ہو گئی تو بھی پورے کیمپس کے بوجھ میں کوئی کمی نہیں آئی مانا کہ کیمپس کی دوسری جامعات نے اپنے دروازے باہر سے آنے والوں بلکہ اپنے طلباء کی گاڑیوں کے لئے بھی بند کرکے پہرے بٹھا دیئے مگر پشاور یونیورسٹی کی انتظامیہ سے یہ حکمت عملی اوجھل رہی اور یوں
نتیجتاً پشاور یونیورٹی پورے کیمپس کے اڈے میں تبدیل ہو گئی اوپر سے ناقابل استعمال رکشوں اورلا تعداد پک اینڈ ڈراپ گاڑیوں نے رہی سہی کسر پوری کر دی کوئی بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ امر انتظامیہ کے علم میں نہ ہو کہ ناقابل استعمال رکشے اور پک اینڈ ڈراپ گاڑیاں آخر کونسے قانون کے تحت یونیورسٹی کیمپس میں سروس کی مجاز ہیں؟ اسلامیہ کالج‘ زرعی یونیورسٹی‘ انجینئرنگ یونیورسٹی‘ خیبر میڈیکل کالج‘ فارسٹ انسٹیٹیوٹ اور ارنم نے تو گیٹ بند کرکے گاڑیوں کا داخلہ ممنوع قرار دیا مگر پشاور یونیورسٹی میں اور تو کیا ان رکشوں کی تعداد میں بھی بڑی تیزی سے اضافہ ہورہا ہے جو یونیورسٹی کیمپس سے باہر سروس کے لئے فٹ نہیں اور نہ ہی ٹریفک پولیس سروس کا موقع دیتی ہے‘ اس امر میں کوئی دورائے نہیں کہ کسی جامعہ کا رکشوں اور پک اینڈ ڈراپ گاڑیوں کے اڈے میں تبدیل ہونا درسگاہ کے وقار‘ تعلیمی ماحول اور درست طریقہ کار سے مناسبت نہیں رکھتا‘ دوسری قابل غور بات یہ ہے کہ یونیورسٹی کیمپس کی دوسری تمام جامعات اور کالجز وغیرہ میں آنے والی پک اینڈ ڈراپ اور سروس پرائیویٹ گاڑیاں جامعہ پشاور کو پارکنگ سٹینڈ یا اڈے کے طور پر استعمال کر رہی ہیں مگر پرسان حال کوئی بھی نہیں اب تو حالت یہاں تک بگڑ چکی ہے کہ روڈ نمبر2 کے انجینئرنگ چوک سے پوسٹ مال چوک تک‘ پوسٹ مال سے انسٹیٹیوٹ آف کریمنیالوجی اور جنوب کی طرف باہر جمرود روڈ آئی ای آر کے گیٹ تک لاء کالج وائس چانسلر چوک سے شعبہ امتحانات ایریا سٹڈی سنٹر گیٹ تک جبکہ وائس چانسلر چوک سے پولیس چوک تک تمام سڑکیں پارکنگ میں تبدیل ہو چکی ہیں مگر انتظامیہ نے چپ سادھ لی ہے یہاں تک کہ انتظامیہ نے اس
ضرورت کو بھی کبھی محسوس نہیں کیا کہ ان غیر قانونی اڈوں میں طلباء کی گاڑیاں کتنی ہیں اور رکشوں پک اینڈ ڈراپ اور چکر یعنی ہوا خوری کے لئے باہر سے آنے والوں کی کتنی گاڑیاں کھڑی کی جاتی ہیں؟دراصل یہ سب کچھ بد انتظامی اور بے حسی کانتیجہ ہے ورنہ پورے کیمپس کی گاڑیوں کا پشاور یونیورسٹی میں کھڑی کرنے کا جواز کیا ہے؟ یہاں پر پولیس اور ان میں ٹریفک پولیس کی نفری‘ سٹی پٹرولنگ اور ابابیل فورس بھی موجود ہے مگر کسی کی کیا مجال کہ کسی رکشے پک اینڈ ڈراپ اور ریس سکریچنگ اور ون ویلنگ والوں سے لائسنس یا کاغذات طلب کرے؟ قدیم درسگاہ سے الگ ہونے والے تعلیمی اداروں نے تو گیٹ بند کرکے اپنے آپ کو محفوظ کر لیا مگر جامعہ پشاور کا حلیہ دن بہ دن بگڑتا جا رہا ہے یہاں تک کہ اب تو شہر بھر کی سکریچنگ والی گاڑیاں تو کیا ٹک ٹاکروں نے بھی اس شہر ناپرسان کا رخ کر لیا ہے نہ جانے اس جائنٹ فیملی کا کیا بنے گا؟ جہاں پر تمام تر بوجھ مادر علمی پر ڈالایاگیا ہے اور جامعہ کی انتظامیہ ”سب اچھا“پر اکتفاء کر رہی ہے۔