یونیورسٹی کیمپس کے معمولات زندگی ایک عرصے سے بڑے عجیب و غریب اور انوکھے واقع ہو رہے ہیں انتظام و انصرام کے حوالے سے انتظامیہ ہمیشہ سے یہ شکایت کر رہی ہے کہ پولیس تعاون نہیں کر رہی جبکہ پولیس کا موقف ہے کہ وہ یونیورسٹی کے سربراہ کے کہے بغیر کوئی کاروائی نہیں کر سکتی ایسے میں وادی پشاور میں ماضی کا یہ حسین اور ہر لحاظ سے منفرد مقام ایک عرصہ سے بدنظمی‘ ابتری اور ہلڑ بازی کاشکار ہو کر رہ گیا ہے اور تو کیا کہ ٹک ٹاکروں کا بھی کسی نے نوٹس نہیں لیا لہٰذا وہ بلا خوف و خطر یعنی نہایت دیدہ دلیری سے یونیورسٹی کے پہلے وائس چانسلر کے نام سے منسوب شیخ تیمور اکیڈمک بلاک یا جہاں بھی چاہے ٹک ٹاکری کرکے اس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل کر دیتے ہیں اور یوں اس قدیم درسگاہ جسے مادر علمی کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے عوام الناس کی نظروں میں گرانے کی مشق میں رہی سہی کسر پوری ہو جاتی ہے کیمپس میں ٹریفک کے نظام کا کیا کہیے؟ سچ تو یہ ہے کہ اسے نظام کہنا بھی کسی سسٹم کی توہین ہے یہاں پر ٹریفک پولیس پشاور کے ایک گرینڈ آپریشن کی اشد ضرورت ہے مگر یہ امر سمجھ سے بالا تر ہے کہ یونیورسٹی کیمپس
کیپٹل کے ٹریفک چیف سے کیوں اوجھل ہے؟ ورنہ سب سے پہلے تو آ کر یونیورسٹی انتظامیہ سے استفسار کر لیتے کہ یہاں پر سروس کرنے والے رکشے اور پک اینڈڈراپ گاڑیوں میں سے کتنی تعداد قابل سروس ہے؟ اور پھر ڈنڈا اور چالان بک اٹھا کر سب کو ٹھکانے لگا لیتے مگر صد افسوس کہ ایسا نہیں ہو رہا اور پشاور کے مثالی خطے کا تعلیمی ماحول ماضی کا قصہ بنتا جا رہا ہے غالباً یونیورسٹی انتظامیہ نے پیسہ کمانے کو اپنا نصب العین بنا رکھا ہے ورنہ اتنی تہہ بازاری تو کسی بڑے جنرل بس سٹینڈ میں بھی نظر نہیں آتی جو ایک عرصے سے یونیورسٹی کیمپس پر مسلط کی گئی ہے یونیورسٹی کی اپنی بسوں کے ڈرائیوروں سمیت کسی بھی پریشر ہارن بجانے‘ ون ویلنگ‘ سکریچنگ اور ریس کے مرتکب عناصر جبکہ طالبات کو ہراساں کرنے کی غرض سے دن بھر کیمپس کی سڑکوں پر گھومنے اور گاڑیوں میں فحش ریکارڈنگ کرنیوالے سر پھروں کو آج تک کسی نے بھی تھانے میں بند نہیں کیا ورنہ حالت اس نہج تک نہ پہنچ پاتی۔صبح سویرے کی بجائے دن آٹھ بجے بلکہ اس سے بھی تاخیر سے سڑکوں پر جھاڑو دے کر گرد و غبار کا طوفان برپا کرنا بھی یونیورسٹی کیمپس کے معمولات میں شامل ہو گیا ہے کیونکہ پوچھ گچھ اور جواب دہی کا کوئی نظام اور انتظام موجود نہیں‘ یونیورسٹی کے ہر احاطے اور ہر اکیڈیک ایریا تک رکشوں اور پک اینڈ ڈراپ کی رسائی جبکہ ہر چوک بلکہ ہر سڑک پر ان کے پارکنگ پوائنٹ بھی کیمپس کے معمولات میں ایک نیا اضافہ سمجھ لیں اب انتظار اس وقت کا ہے کہ یونیورسٹی میں طلباء کی تعداد مطلوبہ ہدف تک پہنچ جائے ہر چند کہ جامعہ کے موجودہ سربراہ نے گزشتہ دو سال کے دوران مختلف طریقوں اور کوششوں سے یہ تعداد ایک حد تک بڑھا دی ہے تاہم ہدف یعنی طلباء کی تعداد
مرحلہ وار تیس ہزار تک پہنچانا ابھی دور ہے یہ سب کچھ اس کے باوجود ہے کہ یونیورسٹی ملازمین کی تعداد اس وقت کی تعداد سے کہیں زیادہ ہے جس وقت پورے صوبے بشمول فاٹا میں محض چار یونیورسٹیاں تھیں اور پشاور یونیورسٹی کے زیر اہتمام صوبہ بھر کے بیچلر امتحان دینے والے 70 ہزار سے بھی زیادہ ہوا کرتے تھے ایسے میں جامعہ کے موجودہ سربراہ کی یہ زیر لب بات بے جا نہیں لگتی کہ یہاں یہ حلال و حرام کی کوئی تمیز نہیں۔ بعض لوگ تنخواہیں اور مراعات لیتے ہیں لیکن کام نہیں کرتے۔کیمپس کی سڑکیں آئے روز کھڈوں میں تبدیل ہو رہی ہیں فٹ پاتھوں کی حالت دگر گوں جبکہ صفائی ستھرائی کی ضرورت تو خیر محسوس ہی نہیں ہو رہی حالانکہ اس کے لئے ماضی قریب میں گزشتہ حکومت نے عہد و پیمان بھی کیا تھا اور افتتاح جات کے فیتے بھی کاٹے گئے تھے اصل مسئلہ یہ ہے کہ یہاں پر خود احتسابی اور جوابدہی کا فقدان ہے ورنہ کیمپس کا وجود اور تعلیمی ماحول جس تیزی سے ابتر ہو رہا ہے یہ حالت ہرگز نہ ہوتی یہاں پروائس چانسلر پروفیسر محمد ادریس کی یہ بات درست مانی جائے گی کہ اونر شپ کا احساس جگانے اور جذبہ اُبھارنے کی ضرورت ہے۔