غرباء و مساکین کا داخلہ ممنوع

جامعات کے ملازمین میں ایسے باہمت لوگوں کی کوئی کمی نہیں جنہوں نے ناداری اور کسمپرسی کی زندگی کے ہوتے ہوئے میٹرک یا ایف اے تک تعلیم حاصل کر لی اور بعدازاں معمولی نوکری کرتے ہوئے پرائیویٹ طور پر بی اے یا ایم اے کرکے اپنی حالت کار میں مثبت  تبدیلی لانے میں کامیاب ہوگئے‘ ایسے محنتی لوگوں کی تعداد پشاور یونیورسٹی میں قدرے زیادہ ہے کیونکہ یہ ملک کی قدیم درسگاہ ہے جہاں پر دوسری پرانی اور نئی یونیورسٹیوں سے ملازمین کی تعداد کہیں زیادہ ہے ان لوگوں میں سے تو بعض نے جونیئر کلرک نائب قاصد جسے عرف عام میں چپڑاسی بھی کہا جاتا ہے مالی یا ڈرائیور جیسی درجے کی ملازمت کیساتھ ساتھ تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رکھا اور پھر اپنی جامعات میں گریڈ20تک کے عہدے پر فائز ہو کر عرصہ تک خدمات انجام دیتے رہے ایسے باہمت لوگوں یا غریبوں میں جامعہ پشاور‘ اسلامیہ کالج یونیورسٹی‘ ویمن یونیورسٹی پشاور سمیت مختلف پرائیویٹ یونیورسٹیوں میں رجسٹرار کی حیثیت سے فرائض انجام دینے والے شیر بہادر خان اور زرعی یونیورسٹی میں ڈائریکٹر فنانس کے منصب تک پہنچنے والے ڈاکٹر فرزند علی جان کو مشت نمونہئ خروار کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے‘ دوسالہ بیچلر اور ماسٹر پروگرامات کیساتھ ساتھ ایک عرصہ پرائیویٹ دو سالہ فاصلاتی نظام تعلیم سے بھی بہت سے لوگوں نے دوران ملازمت استفادہ کیا ہوگا مگر غرباء و مساکین کیلئے دوران ملازمت آگے بڑھنے کی راہ اس وقت مسدود کردی گئی جب اعلیٰ تعلیمی کمیشن نے پرائیویٹ بی اے اور ایم اے پر پابندی عائد کرنے کے ساتھ ساتھ فاصلاتی نظام تعلیم کو بھی خیرباد کہہ دیا حالانکہ دنیاکے اکثر  ممالک بلکہ پاکستان میں بھی جامعات  کی سطح تک ایسے تعلیمی ادارے موجود ہیں جہاں پر ورچوئل یا آن لائن نظام تعلیم رائج ہے اور وہاں سے پی ایچ ڈی تک کی ڈگریاں دی جاتی ہیں اب بیچارے غریب کلاس فور تو بی ایس کی ریگو لر کلاسز اور اسکے بھاری بھرکم اخراجات کی سکت اور استطاعت تو ظاہر ہے کہ نہیں رکھتے اس لئے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ نادار لوگوں کیلئے حصول تعلیم اور اس کے ذریعے آگے بڑھ کر کسی بڑی جاب تک پہنچنے کا راستہ عملاً روکا گیا دو سالہ بیچلر اور ماسٹر کے خاتمے سے قبل جب ترقی یافتہ ممالک کی دیکھا دیکھی میں چار سالہ بی ایس پروگرام لایا گیا تو بعض لوگوں کاخیال تک تھا کہ یہ پروگرام سائنس کے سبجیکٹ تک محدود رہے گا مگر یہ اندازہ صحیح نہیں تھا کیونکہ بی ایس کو سائنس  سمیت آرٹس‘ سوشل سائنس‘ لسانیات اور دینیات وغیرہ ہر سبجیکٹ میں رائج کیا گیا مگر کہنے کی بات یہ ہے کہ یہ غریب لوگوں کیلئے نہیں کیونکہ ایک نادار کلاس فور یا کلاس تھری ملازم اپنی ملازمت کے دوران بی ایس پروگرام کی کلاسز اور اخراجات کی ادائیگی کا تصور تو کر سکتا ہے لیکن عملاً اسکے بس کی بات نہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ دو سالہ پرائیویٹ بیچلر اور ماسٹر پروگرام اور ساتھ ہی فاصلاتی نظام پر پابندی عائد کرکے فروغ تعلیم اور ملک کے نادار ملازمت پیشہ لوگوں کو نقصان پہنچایا گیا یا یہ اقدام قومی مفاد میں درست ثابت ہو رہا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ کچھ عرصہ کے دوران تعلیمی بجٹ کی نصف کٹوتی کرکے جامعات کو مالی بحران سے دوچار کرنے کی طرح د و سالہ پرائیویٹ بیچلر  اور ماسٹر پروگرام کا خاتمہ بھی کوئی معمولی واقعہ نہیں بلکہ المیہ ہی سمجھا جائیگا کہا جاتا ہے کہ ہم اپنے تعلیمی نظام اور درس و تحقیق کو عالمی معیار سے ہم آہنگ کرنے جارہے ہیں مگر کہنے ک بات یہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کے ہم پلہ ہونے یا ہمسری کے تو دوسرے کئی کام اور مواقع بھی ہیں مثال کے طور پر ایسے ممالک کے تعلیمی بجٹ کا جائزہ لیکر سوچ لیں کہ ان ممالک میں تو ایسی یونیورسٹیاں بھی ہیں جن کاسالانہ بجٹ ہمارے قومی بجٹ سے تھوڑا سا کم ہوگا اور ہماری حالت کیا ہے؟ یعنی15 فیصد اضافی تنخواہ بھی نہیں دے سکتے۔