جمہوریت کی پاسداری کی دعویدار سیاسی قوتونوں کے ہاتھوں صوبائی خود مختاری کے نام پر آئین میں اٹھارویں ترمیم کے ذریعے ملک کی جامعات کی قومی حیثیت ختم کرکے اسے صوبائی سطح تک نیچے لے آنے کا جو نتیجہ تعلیمی ابتری کی شکل میں سامنے آیا وہ کسی سے بھی ڈھکا چھپا نہیں۔ایسے میں جامعات ملازمین کا یہ راگ الاپنا کہ وہ خود مختار ہیں میرے نزدیک اپنے آپ کو ورغلانے سے زیادہ کچھ نہیں‘ ہاں البتہ یہ ضرور ہے کہ خود مختاری کے نام پر ان کی ادائیں طرح طرح کی ہیں اور تاحال کسی بھی سرکار نے اس کا کوئی نوٹس نہیں لیا‘مثال کے طورپر عیدین پر سرکاری اعلان کے برعکس اپنی مرضی کی چھٹیاں منانے، صفائی ستھرائی یعنی کوڑا کرکٹ اٹھانے اور جھاڑو دینے کاکام علی الصبح کی بجائے دن کے وقت یعنی دفاتر کھولنے کے بعد اور وہ بھی بغیر چھڑکاؤ کے مطلب گرد و غبار کا طوفان برپا کرنے کیلئے کیونکہ خود مختار جو ٹھہرے ہیں سینکڑوں قابل استعمال اور ناقابل استعمال رکشوں اور پک اینڈ ڈراپ گاڑیوں کو یونیورسٹی میں مسلط کرکے ایک اعلیٰ تعلیمی ادارے کو بس اڈہ میں تبدیل کرنے کی خود مختاری، شہر بھرمیں سروس کے لئے ممنوع قرار دیئے جانے والے ٹو سٹروک رکشوں کی بھر مار کو مسلسل نظر انداز کرنا،پرانے عمر رسیدہ درختوں کو نیلام کرکے نئے پودوں کا لگانا خاطر میں نہ لانا‘پریشر ہارن‘ ون ویلنگ‘ سکریچنگ اور ریس کو معمولات سمجھنا جبکہ یونیفارم کو قصہ پارینہ قرار دینا جیسی ادائیں جامعات کی خود مختاری کے وہ آثار ہیں جو یونیورسٹیوں کی خود مختاری ثابت کر دیتے ہیں۔ ریس سکریچنگ‘ ون ویلنگ اور ہلڑ بازی کیلئے شہر بھر کی گاڑیوں اور بغیر جالی والے سلینسر کی موٹر سائیکلوں کا یونیورسٹی میں آماجگاہ کا معمول بننا بھی یونیورسٹی میں قواعد و ضوابط ڈسپلن اور انتظامیہ کی فرض شناسی کی واضح مثال ہیں۔ایسے میں جب کبھی وی آئی پی یا وی وی آئی پی موومنٹ ہو تو پھر انتظامیہ کی حاضری‘ فرض شناسی اور دیدہ دلیری قابل دید ہوتی ہے ایسے میں پھر پولیس‘ سٹی پٹرولنگ‘ ابابیل فورس اور ٹریفک سکواڈ کو بھی اپنے اپنے فرائض یاد آ جاتے ہیں۔ تعلیمی اداروں کے حساس اور ذمہ دار لوگ یعنی وہ ملازمین جو اونرشپ کے جذبے سے سرشار ہیں اس امر بلکہ فکر کے ہاتھوں اندیشہ رکھتے ہیں کہ اگر حالت اسی طرح رہی تو نہ جانے کہ آئندہ دس سال کے دوران یونیورسٹی کیمپس کا حلیہ کیسے ہو گا؟ صرف یہ نہیں بلکہ کیمپس کی تمام جامعات کے ہاسٹلوں‘ احاطوں اور مارکیٹوں میں کینٹین اور کیفے بھی قائم ہیں جبکہ بلا ضرورت مزید بھی قائم ہو رہے ہیں ان کی نگرانی کیلئے جامعات کی سب سے بڑی باڈی یعنی سنڈیکیٹ کی مارکیٹ مینجمنٹ کمیٹی قائم ہے مگر کسی کی کیاں مجال کہ جا کر معائنہ کرکے اندازہ لگائیں کہ یہاں پر اشیائے خوردو نوش کا معیار‘ مقدار اور قیمت کیا ہے؟60 روپے فی کپ چائے اور تین سو سے لیکر پانچ سو روپے تک برگر بیچنے والے سے بھی کوئی پوچھنے والا نہیں ایسے میں اگر کوئی بندہ کچھ کہنا چاہئے تو سوائے اس کے اور کیا کہہ سکتا ہے کہ ایسے میں نظام تعلیم‘ تعلیمی اداروں‘ تعلیمی ماحول اور طلباء کا کیا بنے گا۔ تنخواہیں لاکھوں روپے‘ عالیشان دفاتر‘ گاڑی‘ ڈرائیور‘ بنگلہ میں رہائش علاج اور تعلیم مفت اور کام کرسی کے حوالے؟ترقی‘ تنخواہوں میں اضافے الاؤنسز کے حصول کیلئے سڑکوں پر آنا دھرنے‘ تالہ بندی‘ ریلیاں اور احتجاجی سٹیج پر خطابت کا زور اور تعلیمی ماحول کی ایسی دگرگوں حالت؟ یہ اس لئے کہ فرض شناسی کا احساس اپنی موت آپ مرچکا ہے اور جوابدہی کا کوئی نظام وجود نہیں رکھتا سوچنے کی بات ہے کہ یونیورسٹی جیسی جگہ میں ملازمت کسی بڑی غنیمت سے کم نہیں اور اس غنیمت کا پاس نہ رکھنا ناشکری کے زمرے میں آتا ہے۔ ایسے میں کیمپس کے ایک سنجیدہ بہی خوا ہ کی یہ بات پتھر پر لکیر کی مانند لگتی ہے کہ وادی پشاور کا وہ مثالی مقام یعنی یونیورسٹی کیمپس کہاں گیا جو کہ نہ صرف ماحول کے حوالے سے پورے پشاور میں ایک نمونے کی حیثیت رکھتا تھابلکہ درجہ حرارت میں بھی ایک منفرد مقام کا حامل تھا۔
اشتہار
مقبول خبریں
بے اعتنائی کی کوئی حد نہیں ہوتی؟
پریشان داﺅدزے
پریشان داﺅدزے
مژدہ برائے سبکدوشان
پریشان داﺅدزے
پریشان داﺅدزے
تجدید عزم یا عزم نو؟
پریشان داﺅدزے
پریشان داﺅدزے
مادر علمی کی عظمت رفتہ
پریشان داﺅدزے
پریشان داﺅدزے